Books and Documents
ہمارے معاشرے کی طبقاتی تقسیم میں مالک وملازم ’ آقا و خادم ، سرپرست و زیر دست اعلیٰ و ادنیٰ کی اخلاقی قدریں بھی جدا جدا ہیں ۔ مثلاًؑ ایک خادم اورملازم کےلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آقا کا وفادار ہو اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرے۔ اس کے احکامات کےبے چوں چرا تعمیل کرے یہاں تک کہ ضرورت پڑنےپر اپنے آقا کی خاطر جان تک دے دے۔ خادم میں یہ احساسات و جذبات کیوں پیدا ہوتےہیں؟ اس حقیقت کو سمجھنے کےلئے آقا اور ملازم کی شخصیتوں کو دیکھا جائے :آقا وہ شخص ہے جو اپنے ملازم یا خادم کو معاش فراہم کرتاہے اس کی ضروریات زندگی پوری کرتا ہے ۔
Jinnah’s
paranoia led to Pakistan’s reckless first invasion of Kashmir, months after
independence. The author concludes that it is the dispute over Kashmir, and
that alone, which ensures a “violent, unbridgeable chasm” still divides India
and Pakistan. He might have considered an alternative possibility: the idea
that Pakistan’s army, and its supporters, keeps alive the dispute in Kashmir as
a means of preserving its outsized claim on public resources and
policymaking....
‘‘ اقبال نے ہندوستان کےمسلمانوں کےسامنےملت اسلامیہ کی ایک سیاسی شخصیت رکھی، جس کا دنیا میں کہیں وجود نہ تھا ۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ اگر اقبال کو ہندو مسلم متحدہ قومیت سے انکار تھا تو اس براعظم کی مسلمان آبادی کے گزشتہ آٹھ سو سال کی ہندی اسلامی فکر پر نظر ڈالتا اور اس کا احصاء اور تجزیہ کرتا، اس کی اساس پر اس سرزمین میں ہندی مسلم قومیت کی عمارت اٹھاتا ،لیکن وہ دوسرے مسلمان ملکوں کےشاندار ماضی ہی کےراگ الاپتا رہا اور اسلامی ہند کی تاریخی عظمتوں میں خال خال اسےکوئی پرکشش موضوع سخن ملا۔
ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا عروج ہندوستان کی سیاست میں انتشار اور ناانصافی کی وجہ سے تھا کمپنی نے اس سیاسی صورت حال سے فائدہ اٹھایا اور آہستہ آہستہ اپنے اقتدار کو یہاں تک بڑھایا کہ مغل بادشاہ بھی اس وظیفہ خوار ہوگیا ۔ اس پورے عرصے میں ہندوستان کےحکمراں طبقے نے خود کو انتہائی نا اہل اور نالائق ثابت کیا ان میں نہ تو اتنی فراست تھی کہ وہ کمپنی کی بڑھتی ہوئی طاقت دیکھ کر سیاسی نشیب و فراز کا اندازہ لگا لیتے اورنہ ہی ان میں اتنی دانش مندی تھی کہ وہ آپس کے جھگڑوں کو ختم کرکےاپنی سیاسی حیثیت کو مضبوط کرلیتے ۔
سرسید کے بارےمیں دوسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کوذلت و پستی سےنکالا اور ان میں تعلیم عام کی ان کے اس کارنامے کو بھی مبالغے کےساتھ پیش کیا جاتا ہے دراصل مسلمانوں کو پستی کا تصور ڈبلیو ہنٹر کی کتاب ‘‘ہمارے ہندستانی مسلمان’’ نے دیااس میں بنگال کے مسلمانوں کی پستی اور جہالت کاذکر ہے لیکن بعدمیں اس کو یورپی کے مسلمانوں پر لاگو کردیا ۔ جبکہ یوپی کے مسلمان پورے ہندوستان میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر خوشحال تھے اور تعلیم کےمیدان میں ہندوؤں سےبھی آگے تھے یہی حال سرکار ی ملازمتوں کا تھا ۔
ہندوستان کو جن مسلمان حکمرانوں نے فتح کیا ان کے دائرہ عمل میں لوگوں کو مسلمان کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں تھا ان کی فتوحات خالصتاً سیاسی مقاصد کے لئے تھیں یعنی سلطنت کی حدود بڑھانا اورذرائع آمدنی میں اضافے کرنا ۔ اگر مفتوح قوم میں سے کچھ نےاسلام قبول کرلیا تو ان کی ہمت افزائی ضرور کی گئی لیکن انہوں نے اس پالیسی کو اختیار نہیں کہ مفتوحین کو تبلیغ کے ذریعے یا جبر کے ذریعے مسلمان کیا جائے اس عمل میں کئی دقتیں تھیں : یہ نا ممکن تھا کہ تمام مفتوحہ علاقے کے لوگوں کو جبراً مسلمان بنایا جاتا اور انکار کی صورت میں تمام آبادی کو قتل کردیا جاتا مذہب کی تبدیلی ویسے بھی اچانک نہیں ہوتی۔
جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تو ان کا تعلق وسط ایشیا اور ایران سےبھی رہا سیاسی و ثقافتی اثرات انہوں نے وسط ایشیاء اور ایران سے قبول کئے جب کہ مذہبی معاملات میں وہ حجاز کےعلماء سےمتاثر تھے حجاز کی مذہبی درس گاہیں اسلام کی کلاسیکی تعلیمات کا مرکز تھیں اور زمانے کے تبدیلیوں سے دور اسلام کی تاویل وتفسیر قدیم رجحانات کے ساتھ کرتی تھیں ہندوستان کےجو علماء ان درسگاہوں میں تربیت پاتے تھے وہ واپس ہندوستان آکر انہیں مغربی رجحانات کو پھیلاتے تھے اس کی وجہ سےہمارے علماء اور مذہبی جماعتیں متشدش اور بنیاد پرست ہوگئیں او رہندوستان کےسیاسی و سماجی حالات کو نہیں سمجھ سکیں۔
Qutb, Amin writes,
misinterpreted the term Quwwah
(power, strength) in this verse to mean force intended to subdue non-Muslims.
Qutb claimed that the purpose of Quwwah
was not just defence. He strongly propagated the use of offensive force, and
claimed that Muslims were ordered to strike fear and disseminate terror in the
hearts of the ‘enemies of God’. In Qutb’s misinterpretation of Quwwah, which Amin notes is not shared
by many other exegetes of the Quran, the term shifts from being mere military
preparedness for the purposes of deterrence to being an offensive tool whose
purpose is to subdue others.....
ہندوستان میں مسلمان معاشرے کی ذات پات اورنسل کی تاریخ میں ایک اہم اضافہ ایک نامعلوم مصنف کی کتاب ‘‘مرزانامہ’’ ہے یہ کتاب برٹش میوزم میں نسخہ نمبر 1817-16 AD میں درج ہے اور اندازاً یہ 1660 ء میں لکھی گئی تھی اس کتاب کا انگریزی میں خلاصہ عزیز احمد نے کیا تھا اور اسی سے اس کا خلاصہ یہاں درج کیا جارہا ہے اگر چہ ‘‘مرزا نامہ ’’ کے عنوان سے اور کتابوں کا بھی پتہ چلتا ہے مگر اس میں جو تفصیل ہے وہ دوسری کتابوں میں نہیں ہے۔
Born in a world
where the Muslim community has been divided into two indefinite sects makes for
a reality that we have come to accept and also overlook. The conflict between
Sunnis and Shias is the news of everyday, but there has never been a proper,
unbiased understanding of the real issue. Where did all of this animosity
really stem from? The Sunnis have their version and the Shias have theirs.....
آٹھویں صدی اور انیسویں صدی کا ہندوستان سیاسی و معاشی اور معاشرتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا، مغل سلطنت کی مرکزیت ختم ہوچکی تھی۔ صوبائی طاقتیں خود مختار ہوکر خانہ جنگیوں میں مصروف تھیں ۔ انگریز آہستہ آہستہ ہندوستان میں اپنے قدم جمارے تھے ۔ مسلمان معاشرے میں امراء اور علماء اپنی مراعات کو کھونے کے بعد عدم تحفظ کاشکار تھے ۔اگر چہ ایک مسلمان کےلئے ان حالات نے کوئی تبدیلی نہیں کی تھی، وہ پہلے ہی سے سماجی طور پر پس ماندہ تھا اور اس کے پاس بگڑتے ہوئے حالات میں کھونے کے لئے کچھ نہ تھا ۔
انگریزوں کی فتح کے بعد علماء کےمسائل میں مزید اضافہ ہوا ۔ سب سے پہلا مسئلہ تو یہ پیدا ہوا کہ کیا ہندوستان دارالحرب ہے یا دارالسلام ؟ اگر دارالحرب ہے تو پھر کیا اس ملک سے ہجرت کی جائے یا جہاد کیا جائے؟ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اگر ہجرت نہ کی جائے او ریہاں رہائش برقرار رکھی جائے تو کیا اس صورت میں انگریز کی ملازمت کی جائے؟ کیا انگریزی زبان کو سیکھا جائے؟ اور کیا انگریزی طور طریق اور آداب کو اختیار کیا جائے؟ یہ وہ مسائل تھے کہ جن پر علماء نےاپنےاپنے مفادات کی روشنی میں فتوے دیئے ۔ ولی اللہ خاندان کے سربراہ شاہ عبدالعزیز کا اس سلسلے میں یہ موقف تھا کہ ہندوستان دارالحرب ہے لیکن ہندوستان سےہجرت ضروری نہیں ۔
جب مغلوں کا زوال ہوا اور اس کے ساتھ علماء کے وظیفوں او رمدد معاش کی جاگیروں کا سلسلہ ختم ہونا شروع ہوا تو اس میں سے کچھ چھوٹی چھوٹی مسلمان ریاستوں میں پناہ لینی شروع کردی او رکچھ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی ملازمت قبول کرلی ۔ مگر اکثریت کے لئے معاش کے دروازے بند ہوگئے، اس کا حل یہ نکالا گیا کہ جگہ جگہ مذہبی مدرسے قائم ہونا شروع ہوگئے اور چندوں کے ذریعے علماء نے اپنی گزر اوقات کا حل نکالا ، اس صورت میں ان کا تعلق مسلمانوں کے اونچے طبقوں یعنی زمینداروں اور تعلقہ داروں سے ہوگیا ۔
While Islamic
theological literature abounds in speculations about the rewards of paradise
and the punishments of hell, these ‘expositions’ catered to the intellectual
and emotional needs of the era, are not rooted in the Qur’an, and can hardly be
of any help to the believer. To earn God’s blessings, a believer needs the glow
of faith, the love of God, and compliance with divine guidance, rather than the
attraction of hur4 or fear of hell. However, the believers can take a lesson
from the Qur’anic description of human state in hell and paradise, and in doing
so, cultivate a behaviour pattern that can make their life pleasant on
earth......
دیوبند فرنگی محل اور مظاہر العلوم اور ان جیسے مدرسوں نے جن طالب علموں کو پیدا کیا وہ جدید تعلیم ، جدید روایات اور وقت کی تبدیلیوں سے قطعی ناواقف تھے ۔ اور ذہنی طور پر وہ عہد و سطی کی پیدوار تھے ۔ نئی سیاسی و سماجی اور سائنسی و فنی ایجادات اور تبدیلیوں سےنہ صرف ناواقف تھے بلکہ اس عمل کو سمجھنے سے قاصر تھے ۔ اس لئے یہ نہ کوئی پیشہ اختیار کر سکتے تھے او رنہ کوئی ملازمت ان کی جگہ صرف مدرسے اور مسجدیں تھی، او راپنے معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے ان کی کوشش تھی کہ مذہبی ادارے قائم ہوتے رہیں چندہ جمع ہوتے رہے او رلوگ مذہبی عقائد و توہمات سے چمٹے رہیں ۔
ہندوستان میں مسلمان معاشرہ، دو طبقوں میں منقسم تھا ۔ ایک اشراف یا امراء کا طبقہ اور دوسرا جلاف اور عوام کا۔ طبقہ اعلیٰ نے جو ثقافتی اقدار تخلیق کیں مثلاً ناموس ، عزت، عصمت، شان و شوکت اور آن بان کے لئے بہترین قیمتی سازوسامان ، ہیرے جواہرات، ہاتھی گھوڑے اور محلات رکھتا تھا ۔ عمدہ کھانا کھاتا اور نفیس لباس استعمال کرتا تھا وہ اسی طرح اپنے حرم میں خوبصورت عورتیں جمع کرتا تھا جیسے دوسری قیمتی اشیاء اور جس طرح قیمتی اشیاء کی حفاظت کرتا تھا اسی طرح بیگمات کی حفاظت کی غرض سے اونچی اونچی دیواروں کی محل سرائیں تعمیر کراتا تھا او ر پہرے پر فوجی و خواجہ سرا رکھا کرتا تھا۔ ان پر پردے کی سخت پابندی ہوتی تھی تاکہ دوسروں کی ان پر نظر نہ پڑے ۔
ہندوستان میں اسلام اوّل جنوبی ہندوستان میں تاجروں کے ذریعے پھیلا پھر سندھ میں عربوں کی فتح کے بعد اور آخر میں ترکوں کی فتح کے بعد شمالی ہندوستان آیا ۔ ہندوستان میں مسلمان کی آمد سے قبل یہاں جو مذہبی ، سیاسی، سماجی، اور اقتصادی حالت تھی اس کی بنیاد ذات پات تھی ۔ معاشرے کےمختلف طبقے مختلف ذاتوں اور طبقوں میں تقسیم تھے ۔ اب ذات پات کی تقسیم میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں تھی کہ کوئی شخص اپنی صلاحیت کے ذریعے معاشرے میں کوئی اعلیٰ مقام حاصل کرسکے ۔ یہاں انسان کی پیدائش ہمیشہ کے لیے اسے ایک نہ تبدیہ ہونے والا سماجی مقام اور مرتبہ دیتی تھی۔ جس سے چھٹکارا پانا یا تبدیل کرنا اس کے لیے ایک ناممکن امر تھا ۔
روئے زمین کے بادشاہ خدائے بزرگ و بر تر کی بر گزیدہ مخلوق ہیں ان کے حکم کی خلاف ورزی یا اہانت شروع میں کسی طرح جائز نہیں ۔ پس کسی معاملے میں ظاہری یا پوشیدہ ان کی مخالفت جائز نہیں ..... نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے سلطان کی اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے اللہ کی اطاعت کی وہ بخشا گیا ۔ (1)
اسلامی معاشرے میں اس وقت سماجی تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں جب اسلامی فتوحات کے ذریعے عراق و ایران فتح ہوئے اور ایک بڑی تعداد نے اسلام قبول کرلیا ۔ چونکہ عرب معاشرے میں کسی فرد کی شناخت اس کے قبیلے کے ذریعے سے ہوتی تھی اس لیے جب غیر عرب مسلمان ہوئے تو مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ انہیں کس طرح عرب کے قبائلی نظام میں ضم کیا جائے ۔ چنانچہ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ مسلمان ہونے والے افراد کو کسی نہ کسی عرب قبیلے کا رکن بننا پڑے گا۔ غیر عرب قبیلوں میں شمولیت کے بعد یہ لوگ موالی کہلائے کہ جس کا واحد مولا ہے ۔ چونکہ موالی عرب نہیں تھے اس لیے عرب قبائلی نظام میں ان کی حیثیت ثانوی ہوکر رہ گئی ۔
انسان کی فطرت میں توہمات کا اثر اس قدر ہوتاہے کہ اس کی وجہ سے اس کے جذبات کو آسانی سے بھڑکایا جاسکتا ہے ۔ اس لیے وہ روایات کہ جو عقیدہ اور توہمات کی بنیاد پر تشکیل دی جاتی ہیں، وہ جلد ہی مقبول ہوجاتی ہیں اور انہیں لوگ بغیر کسی تر دو کے قبول کرلیتے ہیں ۔ مثلاً اگر یہ مشہور کردیا جاتا ہے کہ کسی صوفی یا پہنچے ہوئے پیر کیے قبر اچانک دریافت ہوئی ہے لوگ اس کی تحقیق کئے بغیر عام طور سے قبر پر ثواب یا منت ماننے کی غرض سے جانا شروع ہوجاتا ہے ۔ اور اس قبر کی دریافت ہونے کے ساتھ ہی اس کے ارد گرد روایات بننے کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے ۔
However, the
word literally means ‘the close ones.’ Therefore, in the second instance it
understandably stands for people who are close enough, but not necessarily
relatives.4 The subsequent reference to the neighbour who is a ‘stranger’
neither a relative, nor ‘close enough,’ must therefore include anyone,
regardless of religion, nationality, or race. In other words, this verse
explicitly calls for kindness to all people including strangers who may belong
to other faiths, nationalities or races.,,,,,
At least 90% of married Egyptian women between the ages of 15 and 49 have undergone FGM, a practice that continues to cause an unknown number of deaths. In Tunisia – often seen as a liberal beacon in the region – 47.2% of women have suffered domestic violence; in Egypt, 99.3% of women have experienced sexual harassment. Saudi Arabian women of any age need the permission of a male legal guardian to travel, marry, work or access education, and must wear abaya robes and headscarves in public....
صوفیوں نے اگر چہ ترک دنیا تو کی ، مگر انہوں نے جنگلوں او رپہاڑوں میں رہنے کے بجائے شہروں میں رہنا پسند کیا کہ جہاں ان کی خانقاہوں کی تعمیر میں حکمراں اور امراء نے حصہ لیا تاکہ اس خدمت کے بعد وہ بھی ثواب میں حصہ بٹاسکیں ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خانقاہ کے اخراجات کی بڑی رقم حکمرانوں اور امراء کی جانب سےآتی تھی ۔ اس طرح سے ایک طرف تو امداد لی جاتی تھی اور دوسری طرف اسے دنیاوی طاقت واقتدار سے علیحدہ کر کے ایک متبادل قوت بنا دیا تھا کہ جہاں صوفی کو تمام روحانی اور دنیاوی اختیارات پر کنٹرول تھا اور وہ لوگوں کی ضروریات پوری کرتا تھا ۔
اکبر نے ہندوؤں میں اعتماد پیدا کرنے کی غرض سے اور مذہبی رواداری کا ثبوت دیتے ہوئے جزیے کو ختم کیا ہندوؤں سے یاترا ٹیکس اٹھایا اور حکومت کے اقتدار میں غیر مسلموں کو برابر کی شرکت دے کر مغلیہ سلطنت کے ڈھانچے کو بدل دیا اقتدار اب صرف ایک ہی طبقے میں محدود نہیں تھا بلکہ اس میں اہل ہندوستان مذہبی بنیادوں سے بالا تر شریک تھے ۔ اس کی وجہ سے ہندوستان کے عوام میں یہ احساس ہوا کہ مغلیہ سلطنت ہندوؤں او ر مسلمانوں کی مشترکہ سلطنت ہے۔
Given the
horrors that continue to be committed in the name of Islam by some self-styled
‘Islamic groups in different parts of the world today, it is hardly surprising
that many non-Muslims have serious misgivings about Islam and those who claim
to follow it. Harsh, extremely literalist, punitive, misogynist and hate-driven
interpretations of Islam and the brutalities that follow from them continue to
reinforce widespread negative stereotypes about Islam and Muslims across the
world......