New Age Islam
Sat Jun 28 2025, 03:20 PM

Urdu Section ( 14 Dec 2011, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Madrasa Curriculum a Point of Worry مدارس اسلامیہ کا نصاب تعلیم اور عصری تعلیم گاہیں ایک لمحۂ فکریہ

By Md. Akram Nawaz, NewAgeIslam.com

Education is a fundamental pillar of Islam and the works done by Islamic Madrasas in the field of promotion of education can never be ignored, ever, by the Muslims of Indian sub-continent. They have played a significant role in taking the educational graph to new heights. These are the institutions which produced men of letters like Sher Shah Suri, Abul Fazal Faizi, Raja Todarmal and Fatahullah Shirazi. The organisers of these madrasas sacrificed their lives for the independence of the country. Maulana Quasim Nanawati, Maulana Mahmood Hasan Deobandi, Maulana Obaidullah Sindhi, Allama Shibli Nomani, Maulana Husain Ahmad Madni, Maulana Abul Kalam Azad and innumerable people like them are the produce of these madrasas. 

Basically, madrasas were known for their religious tolerance and this is why their alumni include many non-Muslim personalities like Raja Ram Mohan Roy, Dr. Rajendra Prasad and Dr. Sachidanand Sinha. This situation in madrasas continued till the end of 19th century. Now these madrasas have slowly started losing their individuality and stagnancy has crept in.

There was positive justification behind these madrasas supporting non cooperation movement against the British government. But, today when we have our own government, madrasa authorities refusing to accept governmental cooperation for running madrasas is not justified from any angle as it is our democratic right. We have never lagged behind our other Indian brethren in setting up the institution of democracy in the country.

Undoubtedly, the people having such thoughts are ignorant of Islamic tenets. In spite of accepting their weaknesses they say they are happy in whatever they have. They live their lives with these weaknesses and are also proud of it. How sad and disappointing it is. If worldly comfort was a forbidden thing why Prophet Muhammad (pbuh) would had asked God’s protection from poverty? Why had the Prophet ((pbuh) prayed for Medina’s development and prosperity from God? What for had the Prophet (pbuh) taken the services of the prisoners of Badr for education of his companions, the Sahaba-e-Keram? Why had the Prophet (pbuh) said that intellect is a lost belonging of Momins and whereever they find it they should claim it as it is their right? What for did Umar, Abu Bakr, Ali, Usman, Umro bin Al Aas, Ameer Moa’wiyah, Umar bin Abdul Azeez and hundreds of such people stand for?

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/madrasa-curriculum-point-worry-/d/6143

مدارس اسلامیہ کا نصاب تعلیم اور عصری تعلیم گاہیں ایک لمحۂ فکریہ

محمد اکرم نواز، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام

حصول علم اسلام کی بنیادی رکن ہے، اور مدارس اسلامیہ نے تعلیم اور خاص طور سے دینی تعلیم کے فروغ میں وہ عظیم الشان کردار ادا کیا ہے جسےبر صغیر ہند کے مسلمان کبھی فراموش نہیں کرسکتے ۔ ہندوستان کے تعلیمی گراف کو اونچا کرنے میں ان کا بڑا رول ہے۔ انہی مدارس نے شیر شاہ سوری، ابو الفضل ،فیضی ، راجہ ٹوڈرمل اور فتح اللہ شیرازی جیسے نامور ماہرین تعلیم اور منتظمین پیدا کئے (1) ۔ان مدارس کے بوریا نشینوں نے آزادی ہند کی خاطر جان کی بازی لگادی ۔مولانا قاسم نانوتوی ،مولانا محمود حسن دیوبندی ،مولانا عبیداللہ سندھی ،علامہ نعمانی ، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا ابوالکلام آزاد اور ان جیسے ہزاروں مجاہدین آزادی انہیں قلعوں کے پرور دہ تھے۔ بنیادی طور پر مدارس شروع سے ہی مذہبی رواداری کےلئے جانے جاتے تھے ،یہی وجہ تھی کہ ان کے خوشہ چینوں میں غیر مسلم شخصیات کی ایک لمبی فہرست ملتی ہے ،جن میں راجا رام موہن رائے ،ڈاکٹر راجندر پرساد اور ڈاکٹر سچد انند سنہا جیسی نمایاں ہستیاں شامل ہیں(2) مدارس اپنی اس صورتحال پر انیسوی صدی کے آخر تک برقرار رہے،لیکن رفتہ رفتہ یہ مدارس اپنی افادیت و اہمیت کھوتے اور  جمود وتعطل کا شکار ہوتے جارہے ہیں ۔ مدرس اسلامیہ نے برطانوی حکومت کے خلاف عدم تعاون اور مزاحمت کا جو رویہ روار کھا تھا اس کے پیچھے صحتمند  جواز موجود تھا۔ لیکن آج جبکہ حکومت ہماری ہے حکومت سے ملنے والی امداد اور تعاون کو یہ کہہ کر کہ ہم حکومت سےکچھ نہیں لیں گے ، ہم مسجدوں میں امامت اور مؤذنی کر کے جی لیں گے ، مسترد کر دینا قطعی درست نہیں، کیو نکہ یہ ہمارا جمہوری حق ہے۔ ہم اس ملک کی جمہوریت کی بحالی میں دوسرے برادران وطن سے کبھی پیچھے نہیں رہے۔

بلاشبہ ایسی سوچ رکھنے والے اسلامی روح سے ناواقف ہیں۔ وہ اپنی کمیوں کو ماننے کے بجائے کہتے ہیں  کہ دنیا چاہے جو کہے ہم تو اپنی حالت پر خوش ہیں ۔ وہ ان کمیوں کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور ان پر فخر بھی کرتے ہیں ۔ کتنی مایوس کن اور لرزا دینے والی بات ہے۔ اگر دنیوی راحت ایک شجر ممنوعہ تھی تو سلسلہ نبوت کی آخری کڑی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقرسے کیوں پناہ مانگی تھی ؟ کس لئے ہجرت مدینہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ کیے خیر وبرکت کے لئے دعا فرمائی تھی؟ کس لئے صحابۂ کرام کی تعلیم کےلئے بدر کے قیدیوں سے خدمات لی تھیں؟ کس لئے فرمایا تھا کہ حکمت ودانائی کی بات مومن کےلئے متاع گمشدہ ہے، جہاں کہیں وہ اسے پائے وہ اسکا مستحق و حقدار ہے؟ عمر،  ابوبکر ،علی ، عثمان، عمر و بن العاص ،خالد بن الولید، ابو عبیدہ بن الجراح ،امیر معاویہ ، عمر بن عبدالعزیز اور ان جیسے سینکڑوں بے مثال اسلامی حکمران ومنتظمین کس بات کے ثبوت ہیں؟ جہانبانی گناہ تھی تو کس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صالح نفوس کو اس کی تربیت دی؟ خندق کھود کر اپنی دفاع کرنے کا طریقہ خالص ایرانی اور عجمی طریقہ تھا ، پھر کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار فرمایا؟ اگر دنیاداری ناجائز چیز تھی تو کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کا راستہ اپنایا اور مسلمانو ں کو بھی اس کی تلقین فرمائی؟ یہ زکوٰۃ کیا ہے؟ یہ انسانی معاشرے کی اقتصادی بے اعتدالیوں کو اعتدال میں لانے کا طریقہ نہیں تو اور کیا ہے ؟ اور یہ وہ طریقہ ہے جس کی بنیاد پر کسی بھی معاشرے سے غریبی و بدحالی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے ۔اگر اقتصادی بدحالی کوئی چیز نہیں ہے، اگر راحت وآسائش کوئی معنی نہیں رکھتی ،تو اسلام نے زکوٰۃ کی اصطلاح ہی کیوں وضع کی؟ چھوڑ دیتے مسلم معاشرے کی بدحالی کو اپنی حالت پر۔

دراصل مذہب کے لفظی معنی ہوتے ہیں طریقہ اور راستہ کے یعنی وہ راستہ جس کے ذریعہ فطری طریقے سے زندگی گزاری جاسکے۔ کہا جاتا ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور سچی بات تو یہی ہے کہ اسلام باشبہ ایک مکمل دستور رکھتا ہے ۔یہاں دین اور دنیا متضاد چیزیں نہیں ہیں۔ اسلام میں دین و دنیا میں تفریق کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت قرآن پاک میں اپنے بندوں کو دونوں جہاں کی بھلائی و سرخروئی کیلئے دعا کرنے کی تلقین کرتا ہے اور فرماتا ہے‘‘ ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفیی الآخر ۃ حسنۃ’’ (3)۔ جب تک خلافت تھی ، خلیفہ ہی دینی قائد اور سیاسی رہنما ہوتا تھا۔ خلافت کے خاتمے کے بعد اس میں یہ چیزدر آئی۔ لیکن تب بھی دین ودنیا میں اتنی بڑی خلیج نہیں پڑی تھی۔ یہ چیز ہمارے یہاں واضح طریقے سے مسیحیت کے اثرسے آئی جہاں دین کے ٹھیکیداروں نے کتنے ہی سائنس دانوں کو موت کی سزا دے دی۔ ایک نامور سائنسداں گلیلیو کو زندہ آگ کے حوالے کردیا۔ اور جب یہ چیز حد سے گزر ی تو بطور احتجاج عیسائیوں کے اندر ایک الگ فرقہ پروٹسٹنٹ کے نام سے عالم ہستی میں ظہور پذیر ہوا جس کے بانی مبانی مارٹن لوتھر کنگ تھے۔ اس کے بعد وہاں چرچ اور سیاست، دین اور  حکومت ،مذہب اوردنیا کو دو الگ الگ قسموں میں بانٹ دیا گیا اور مذہب کو ویٹی کن کے اندر محدود (صحیح معنی میں محصور) کردیا گیا۔ غیر شعوری طور پر ہم نے ان سے یہ چیز لے لی، جبکہ ہمارا اصول ہے کہ کسی بھی قوم میں پائی جانے والی اچھی خصوصیات کو لو اور خراب کو مت لو، لیکن ہم نے اس اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اچھی چیزیں تو ان سے نہ لیں جو کہ ‘‘ الحکمۃ ضالۃ المؤمن’’(4) کے زمرے میں آتی ہیں اور ان کی ان چیزوں کواپنا لیا جن سے دنیائے عیسائیت کی بنیاد پر دہل  کر رہ گی۔ دین ودنیا کے درمیان یہی تفریق ہمارے مدارس عربیہ اسلامیہ پر بھرپور طریقے سے اثر انداز ہوئی جس کے منفی اثرات ہم اور آپ آج تک دیکھ رہے ہیں۔

اسلام کہتا ہے کہ علم حاصل کرو کورسے کور تک،(5)لیکن حصول علم سے متعلق ہمارا جو عملی رویہ ہے وہ بے حد تشویشناک ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ عزت کی زندگی گزارو ہم کہتے ہیں کہ نہیں ہم تو ذلت کی روٹی کھائیں گے۔ اسلام کہتا ہے کہ ‘‘وابتغو امن فضل اللہ’’ (6) روزی تلاش کرو، ہم تلاش معاشی کو شجرممنوعہ گردانتے ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ تم دوسروں کے محافظ بن کر جیو ،ہم کہتے ہیں کہ نہیں ہم ذمی بن کر جئیں گے۔ آج ہندوستان میں مسلمانوں کی بالکل وہی صورتحال ہے جو اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کا ہوا کرتی تھی۔ ان سے جزیہ لے کر انہیں سیکوریٹی کی تمام تر ذمہ داریوں سے باز رکھا جاتا تھا۔ آج ہم نے تقریباً وہی چیز اختیار رکھی ہے یعنی آج ہم ذمیوں والی زندگی گزاررہے ہیں ۔ ہماری نمائندگی آرمی میں ہے، نہ پولس میں ، اور نہ سول سروسز میں۔ ایک طرح سے گورنمنٹ مشنری سے ہمارا تعلق بے معنی ہوکر رہ گیا ہے۔

ظاہر ہے اس سب کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں۔ اس کے لئے سب سے بڑا عامل علما کرام کا تقشّف گوشہ نشینی ،دنیا و مافیہا سے حد درجہ بے رغبتی اور معقولات جدیدہ سے متعلق ان کی عدم توجہی ہے۔ جب کسی قوم میں پستی آتی ہے تو اس کا شکار سب سے پہلے اس کے ارباب حل وعقد ہوتے ہیں۔ یہی ہمارے ساتھ ہوا ہے۔ یہ مشہور مقولہ ہے کہ ‘‘ الناس علی دین ملو کھم’’( جیسا راجا ویسی پرجا) اور ہمارے بے تاج بادشاہ ہمارے علما ہیں،یہی ہمارے مقتدس وپیشوا ہیں جب ہمارے علما ،جہا نبانی کو ناجائز سمجھنے لگے تو قوم نے بھی اسکو اپنا لیا۔ انہوں نے تعلیمی نصاب سے چھانٹ چھانٹ کر وہ مواد خارج کردیئے جو شریفانہ زندگی میں کسی انسان کے کام آتے ہیں اور جو خالص اسلامی علوم کو سمجھنے میں معاون ہوسکتے ہیں ۔ مثلاً حساب، جغرافیہ ، سماجیات ،اقتصادیات اور تاریخ جیسے علوم وفنون کو دشمن گردان کر انہیں تعلیمی نصاب سے بے دخل کردیا گیا ۔ اس ملک (ہندوستان) کی تاریخ سے صرف نظرکیا گیااور بین الاقوامی تاریخ تو ان کے ہاں کوئی معنی ہی نہیں رکھتی ۔ فارسی زبان کو اپنانے میں انہیں نہ کوئی دشواری محسوس ہوئی اور نہ کوئی قباحت ،لیکن وہیں جب انگریزی زبان نے وہ جگہ لے لی تو اسے اپنا نے سے انہوں نے صاف صاف انکار کردیا اور آج جب کہ انگریزی زبان ایک بین الاقوامی زبان کا روپ اختیار کرچکی ہے یہی رویہ روارکھا جارہا ہے۔ حکومت ہند نے مدارس کے احیا کے لئے مدرسہ بورڈ کے نام سے قدم اٹھایا تھا اس کےتئیں ذمہ داران مدارس کا جو رویہ رہا وہ وبھی مسلمانان ہند کے لئے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔

افسوس تو اس بات کا ہے کہ اصلاح نصاب سے متعلق ندوۃ العلما کا رویہ بھی ،  جس کے قیام کا مقصد ہی نصاب تعلیم میں بوقت ضرورت اصلاح اور قدیم وجدید میں پیدا شدہ خلیج کو پاٹنا تھا، حوصلہ افزا نہیں رہ گیا ہے، اور آج یہ تحریک تو جیسے ناپید ہوکر رہ گئی ہے۔ اسکا نام اب صرف ‘‘ تاریخ ندوۃ العلما ’’ نامی کتاب میں ہی رہ گیا ہے۔ صورتحال وہ ہوگئی ہے کہ کوئی یہ کہہ ہی نہیں سکتا کہ آج کے ندوہ اور کل کے اس ندوہ میں کوئی مماثلت باقی رہ گئی ہے جس کا خواب بانیان ندوۃ العلما نے دیکھا تھا ۔آخر کیا وجہ ہے کہ جو تحریک نصاب تعلیم میں اصلاح و ترمیم کا بیڑہ لیکر اٹھی وہ پھر خود ہی چپی سادھ گئی۔ اس کے زیر سایہ ایک مدرسہ کی بنیاد ڈال دی گئی اور اس میں بھی تقریباً وہی نصاب متعین کردیا گیا جو اور مدارس میں رائج تھا اور وہاں بھی اصلاح کو ناجائز تسلیم کرلیا گیا۔ صاف ظاہر ہے کہ ان کی دور رس نگاہیں ہر گز یہ نہیں چاہتی تھیں، بلکہ ان کی منشا کچھ اور تھی جس کو اس کے ابتدائی دور کے کچھ ہی سال بعد دفن کردیا گیا اور علامہ شبلی کی اصلاحات کونہ صرف مستردکردیا گیا  بلکہ انہیں مجبور کیا گیا کہ وہ ندوۃ العلما ہی ترک فرمادیں ۔ دراصل ‘‘تاریخ ندوۃ العلما’’ کے مطابق ندوہ کے صالح بانیان کا عین مقصد ایسے علما پیدا کرنا تھا جو سماج کے عصری تقاضوں کو پورا کرسکیں ۔ اپنے قسطنطنیہ کے دورے کے دوران علامہ شبلی نے طرز تعلیم اور ترقی تعلیم کا اندازہ کرنے کے مقصد سے وہاں کےکئی تعلیمی اداروں کا معائنہ فرمایا تھا۔ وہ چند بار سر رشتہ تعلیم کےدفتر میں گئے ، تعلیم کے افسروں سے تحقیق طلب باتیں دریافت کیں، بڑے بڑے اسکول اور کالج کا خود دورہ کیا، ٹیچروں اور پروفیسروں سے ملاقاتیں کیں، کالجوں کی سالانہ رپورٹیں حاصل کیں۔ وہ اس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے منسلک تھے جو مسلمانوں کی امیدوں کا نیا مرکز تھی اور خود پرانے نظام تعلیم کے پروردہ تھے، اس لئے دونوں کے حسن وقبح سے بخوبی آشنا تھے، اور یہ جاننے کےلئے بے تاب تھے اس سرزمین میں جہاں مسلمانوں کی حکومت ہے،قدیم وجدید کے مابین کس طریقے سے ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔لیکن وہاں بھی صورتحال کوئی حوصلہ افزاں نہیں تھی ،اور انہیں یہ دیکھ کر بے حد تکلیف ہوئی کہ وہاں بھی قدیم وجدید کے درمیان وہی تفریق روارکھی گئی ہے، (7) اسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک خط میں سرسید احمد خان کو لکھتے ہیں، ‘‘افسوس ہے کہ عربی تعلیم کا پیمانہ یہاں بہت ہی چھوٹاہے اور جو قدیم طریقہ تعلیم تھا اس میں یورپ کا ذرا پر تو نہیں۔جدید تعلیم وسعت کے ساتھ ہے لیکن دونوں کے حد ودجدار کھے گئے ہیں اور جب تک یہ ڈانڈے نہیں ملیں گے اصلی ترقی نہ ہوسکے گی۔ یہی کمی تو ہمارے ملک میں ہے جس کا رونا ہے’’(8) یہاں بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ ابتدائی ایام سے ہی متعدل اور روشن خیال نظریہ اپنانے کی وجہ سے ندوہ کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ، اس کی شان میں قدامت پسند علما نے بے شمار ہجویہ رسائل اور قصائد لکھے ،مخالفت کا اندازہ مندرجہ  ذیل اشعار سے لگایا جاسکتا ہے:

جو ہو خود ضلالت میں بنائے ندوہ

کیا زمانے کو رہ راست پہ لگائے ندوہ

 پیر نیچر کی ہے یہ شعبدہ بازی ساری

آگ لگ جائے اسے بھار میں جائے ندوہ

(9) ندوہ اپنے مقصد میں ایک حد تک کامیاب رہا اور ایسے علما کی ایک بڑی کھیپ پیدا کی جنہوں نے عربی دانی میں اپنا لوہا منوایا ۔اگر ندوہ اپنے اصل مقصد سے پہلو تہی نہ کرتا تو ہندوستان میں مسلمانوں کا نقشہ کچھ اور ہوتا ۔دراصل ندوۃ العلما کی فطرت میں یہ چیز شامل تھی کہ وہاں پر دوطرح کے شعبے ہوں، ایک تو وہ شعبہ جہاں ایسےنبض شناس متخصص او رمعتدل علما پیدا کئے جو لکیر کے فقیر نہ ہوں اور جو مسلمانوں کے شرعی مسائل میں ان کی رہنمائی کرسکیں ۔دوسرا شعبہ ان طلبا کا جہاں انہیں اسلامی علوم کا متخصص تو نہ بنایا جائے لیکن اسلام کی بنیادی تعلیم اتنی دیدی جائے کہ وہ قرآن وسنت کو سمجھ سکیں اور بس۔ ان پر یہ ذمہ داری نہ ڈالی جائے کہ وہ مسلمانوں کے شرعی مسائل میں ان کی رہنمائی کریں۔ لیکن اس کا خاص خیال رکھا جائے کہ دونوں ہی شعبوں میں دسویں مرحلے تک کی ساری کتابیں یکساں طور پر پڑھائی جائیں او رقدیم ولا حاصل مواد کو نصاب سے خارج کردیا جائے تاکہ ان میں طلبا کا قیمتی وقت نہ ہو۔ لیکن ہوا کچھ اور ، پہلا شعبہ تو ہندوستان کے تمام ہی مدارس میں قائم ہے، اور دوسرے شعبے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ افسوس کہ ندوہ نے بھی اس روش کو اختیار کرتے ہوئے صرف پہلے ہی شعبے کو اپنے یہاں جگہ دی۔

ادھر کچھ سالوں سے مدارس کے طلبا کا یونیورسٹیوں کی طرف سے رجحان میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور وہ جوق در جوق عصری درسگاہوں کی طرف رخ کررہے ہیں۔یہ چیز ہماری نیندیں اڑانے کے لئے کافی ہے کہ مدارس سے جو غول آرہا ہے وہ کہا ں کھپے گا۔ وہ صرف عربی، فارسی اور اردو کے شعبوں سے ہی جڑ پاتے ہیں ۔ ان کے علاوہ دیگر شعبوں سے انکا انسلاک تقریباً محال سا ہے۔ ملک میں مذکورہ بلا مضا مین کے اسکوپ سے ہم آپ بخوبی واقف ہیں۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ فارسی اور اردو میں ان مسلم طالبعلموں کی بھی اچھی خاصی بھیڑ آتی ہے جن کا مدرسہ بیک گراؤنڈ نہیں ہوتا ،بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ مسلم طلبا کی اکثریت انہیں شعبوں میں داخلہ لیتےہیں، ایسے میں یہ بات مزید تشویشناک  بن جاتی ہے۔

یہ بذات خود ایک مثبت چیز ہے کہ کم سے کم وہ یونیورسٹیوں کا رخ کر کے اعلیٰ تعلیم تو حاصل کرپاتے ہیں ۔ اس صورتحال کے پیش نظر اب خود یونیورسٹیوں کے فکر مندمسلم اساتذہ کے کام کھڑے ہونے لگے ہیں۔کچھ کا ماننا ہے کہ یہاں آکر یہ دیگر طلبا کی طرح امین اسٹریم کو اختیار کریں اور سول سروسیز ودیگر مقابلہ جاتی امتحانات کے لئے اپنے کو تیار کریں، اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو وہیں اپنی حالت میں رہیں ۔لیکن یہ کوئی حل نہیں ہے ۔مدارس کے فارغین اگر ادھر کا رخ کرلیتے ہیں تو کسی نہ کسی طرح ان کی معاشی حالت کی سطح بہتر ہوہی جاتی ہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مدارس کے فارغ التحصیل جو افراد یونیورسیٹوں کا رخ کرنے کے بعد وہیں بر سرروزگار ہوجاتے ہیں اپنے بچوں کو مدارس میں نہیں پڑھاتے ہیں چاہے ان میں سے بعض کی زبانیں بظاہر مدارس کے فرسودہ نظام تعلیم کی مدح سرائی سے نہ تھکتی ہوں۔ لہٰذا یہ کہنا کہ وہ اگر آئیں تو مین اسٹریم کےلئے از خود تیاری کرکے آئیں ورنہ وہیں رہیں صرف اور صرف اپنا دامن ذمہ داری سے بچانا ہے ۔ اس کا حل یہ ہے کہ جہاں سے وہ آرہے ہیں وہاں اس طرح کے انتظامات کئے جائیں کہ وہ اپنے آپ کو مین اسٹریم ایجوکیشن کا اہل بنا سکیں ،اور اسکی ذمہ داری سارے ہی بڑے اور نمایاں مدارس بالخصوص اصلاح نصاب کے سب سے بڑے اور حقیقی علمبردار او رمیری مادر علمی ندوۃ العلما پر عائد ہوتی ہے۔

مدارس کے نظام تعلیم میں جمود وتعطل کے پیش نظر آج کل مدارس سے لوگ دھیرے دھیرے بیزار ہوتے جارہے ہیں اور مدرسوں میں مالی امداد دینا اپنے مال کا ضیاع گرداننے لگے ہیں جو مسلم سماج کےلئے دینی ،تعلیمی اور ثقافتی پہلوؤں سے خوش آئند اور صحت بخش چیز نہیں ہے۔ مدارس کا  حال کمزور وبے جان جسم کا سا ہوگیا ہے ۔ ہماری حکومت کو ان میں دہشت گرد او روطن مخالف عناصر نظر آتے ہیں جب کہ حکومت کو ان کی کم مائیگی اور بے بضاعتی کو دیکھتے ہوئے ان کے لئے کوئی لائحہ عمل بنانا چاہئے تھا، لیکن اس کے برعکس کمزور وں او ربے بسوں کو وطن مخالف قرار دینے پر یہ ہمیشہ کمر بستہ رہی ہے۔ وہ بچے جو غلیل تک چلانا نہیں جانتے ان پر اے۔ کے 47اور اے ۔کے 56چلانے کا الزام کتنا مضحکہ خیز  ہے ۔ ایک ممتاز یوروپین مصنف Alexander Evansکی زبان میں :

‘‘ درحقیقت اکثر مدارس تعلیم کے مواقع فراہم کرتے ہیں، نہ کہ خطرہ کی علامت ہیں۔ ان دیہاتی بچوں کے لئے بسا اوقات یہ مدارس حصول تعلیم کےلئے اکلوتا ذریعہ ہوتے ہیں۔ یہ مدارس بہت سے یتیم اور دیہاتی غریب بچوں کو ضروری سماجی خدمات فراہم کرتے ہیں ،مثلاً ان بچوں کے لئے تعلیمی ورہائشی سہولیات کا انتظام کرنا جو آسانی سے جبری مزدوری اور جنسی تجارت یا ان جیسی چیزوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اہل یوروپ متفقہ طور پر یہ مانتے ہیں کہ بعض مدراس دہشت گرد پیدا کرتے ہیں،  جبکہ دیگر بہت سارے ایسے ہیں جو انتہا پسندی پھیلانے کا کام کرتے ہیں ، لیکن مدارس کو راست طور سے دہشت گرد ی سے جوڑ نے والی دلیل کمزور پڑجاتی ہے۔ مارک سیجمین نے Understanding Terror Networksکے زیر عنوان اپنے تازہ ترین مطالعہ میں دعوی کیا ہے کہ القاعدہ کے معاصر دہشت گردوں میں سے دوتہائی کا تعلیمی پس منظر سرکاری یا مغربی طرز کے کالجوں کا تھا، مثلاً دہشت گرد احمد شیخ ( جو لندن اسکول آف اکانو مکس میں میرا معاصر تھا) اور اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ آج کےدہشت گرد جدید تعلیمی نظام کے پیداوار ہوں، اور ان میں اکثریت ان ملی ٹینٹو ں کی ہے جو نئے نئے مذہبی بنے ہیں، نہ کہ عام طرز کے علما اور یہ لوگ ہیں جو جدید یت (modernity)کی پیدا وار ہیں نہ کہ مدارس کی’’۔

(10) مشہور ہندوستان مورخ پروفیسر مشیر الحسن کے بقول دیوبندی علما برطانوی ہندوستان میں 1857کے بعد مسلم برادری کو متحد کرنے کی خاطر روشن خیال تحریک کے روپ میں ابھرے نہ کہ انتقامی تحریک کے طور پر ۔ پروفیسر موصوف مزید کہتے ہیں کہ دیوبند یوں نے ملک کی  تقسیم کی مخالفت کی ،دوقومی نظریہ کو مسترد کیا اور کانگریس کی زیر قیادت نیشنل موومنٹ کی پرزور حمایت کی۔

(11) بات صرف یہی نہیں ہے کہ مدارس کے فارغ التحصیل طلبا کا کیا ہوگا ،بات یہ بھی ہے کہ مسلم سماج کا بہت حد تک انجام بھی انہیں پر منحصر ہے۔ ہر سال ان مدارس سے ہزاروں کی تعداد میں طلبا فارغ ہوتے ہیں ، اور ان میں سے اکثر کے سامنے روزگار کے حوالے سے کوئی بھی واضح خاکہ نہیں ہوتا اور نہ ہی اتنی بڑی کھیپ کےلئے کچھ سوچا جاتا ہے ۔ یہ بے حد محنتی ،غضب کے ذہین اور بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی کسی کام کے لئے نہیں ہوتے،کیونکہ ان کی عمر عزیز کا وافر حصہ غیر ضروری اور غیر مفید مواد کے درس وتدرس کی نذر ہوجاتا ہے۔

مدارس میں رائج روایتی طریقہ تدریس بھی پورے طور سے قابل ترمیم ہے، لیکن مدارس کے ارباب حل وعقد اسی فرسودہ اور جامد وبے سود نہج پر مصر ہیں جو ملت اسلامیہ کےلئے سم  قاتل سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ فارسی زبان میں لکھی عربی قواعد کی کتب کی مدد سے عربی زبان سکھانا کتنا مضحکہ خیز ہے، ایک اجنبی زبان سکھنے  کے لئے طلبا کے کاندھوں پر مزید ایک اور اجنبی زبان سیکھنے کا بار ڈالنا کسی بھی طرح سے معقول نہیں ہے۔ اسی طرح ڈھیر ساری قواعد کی کتابیں پڑھادینا بھی کسی طور مناسب نہیں ہے۔ ہمارے مدارس میں قدیم عقلی علوم کو آج بھی پڑھا نا اور جدید عقلی علوم کو قابل اعتنانہ سمجھنا تعلیمی اور فنی اعتبار سے ایک بڑی فاش غلطی ہے جس کا ارتکاب دین سمجھ کر دھڑلے سے لگاتار کیا جارہا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے نامور عالم دین مولانا انظر شاہ کشمیری فرماتے ہیں:

‘‘ کیا ان عصری علوم کے لئے بعض ادارے مخصوص کردینے سے مدارس کے فارغین عصر حاضر کے تقاضے پورا کرنے کے قابل ہوجائیں گے؟ مدارس اسلامیہ سے فارغ ہونے والی اتنی بڑی تعداد کو تابناک مستقبل سے محروم رکھنے کے لئے ذمہ دار کون ہوگا؟کیا مدارس کے فارغین کےلئے عصری علوم کی واقفیت مضرہوگی ؟۔۔۔جب ہےہم درس نظامی پر غور کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ملا نظام الدین سہالوی نے اس زمانے کے مروجہ عصری  علوم وفنون مثلاً طب، علم ہیئب ،ریاضیات ، منطق اور فلسفہ وغیرہ کو داخل نصاب کیا تھا، اور اس طرح سے انہوں نے خود عصری علوم کے لئے راستہ کھول دیا، اس حقیقت سے واقفیت کے باوجود قدیم نصاب پر اصرار اور جدید نصاب سے چشم پوشی کوئی معقول با ت نہیں ہے’’

(12) دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم او رمشہور زمانہ عالم دین قاری محمد طیب صاحب فرماتے ہیں:

(13) ‘‘ درس نظامی کی تدوین خود نصاب تعلیم میں ترمیم کی سب سے بڑی دلیل ہے، اس لئے کہ وہ کسی بھی حال میں قرن اول کا نہیں ہے۔ بلکہ عصری تقاضوں کے مطابق اسے تیار کیا گیا تھا، لہٰذا جب شروع میں ترمیم ممکن تھی تو وہ آج بھی ممکن ہے’’۔دینی اور معاصر علوم پر مشتمل نصاب تعلیم سے پچھلے زمانے میں اسلامی دنیا نے ایسے اہل علم پیدا کئے ہیں جو اپنے اختصاص کے علوم وفنون میں حرف آخر تھے، ساتھ ہی دیگر علوم کے مبادیات سے بھی واقف ہوتے تھے۔ اس زمانے کے نصاب تعلیم نے نامور فقہا، مشکلمین، ماہرین ریاضیات ،ادبا ،اطبا، ماہرین حیاتیات اور ماہرین سیاسیات پر مشتمل ایک قابل رشک جماعت پیدا کی ۔ ان میں امام ابو حنیفہ ،امام شافعی، امام غزالی، ابن سینا، ابن الھثیم ،خوار رزمی ، محمد بن جابر بطانی، ابو الوفا، ابن یونس بطرش، ابن رشد، عمر خیام ،ابو موسی جابر ابن حیان، اصمعی ،جاحظ ،دسیری، دمشقی ، ابن اللیث ،کرخی ، حکیم ابن عطا المعروف بہ ابن المقنع ۔

(14)حسن بن موسی بن شاکر ، ابو جعفر محمد ابن حسن المعروف بہ نصیر الدین طوسی ،ابن عالم ،ابوقاسم عبداللہ ،ابو حسن علی ابن ابو ظاہر ہے یہ کوئی آسان کام نہیں ہے کہ ادھر کہا اور ادھر نصاب تعلیم تیار ہوگیا۔ بلاشبہ یہ بے حد دقت طلب امر ہے۔ اس کے لئے زبردست ،مخلص اور سنجیدہ محنت کی ضرورت ہے۔ راہ میں مشکلات ہیں، اور اڑچنیں ہیں لیکن ایک بہادر اور باشعور قوم، جو ایک سنہری تاریخ رکھتی ہے، چیلنجوں کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکتی بلکہ مردانہ واران کا مقابلہ کرتی ہے۔ ایسے میں حکیم عبدالحمید مرحوم سے سبق لینا چاہئے کہ انہوں نے کتنے پرسوز اور ناگفتہ حالات میں کام کیا۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں یہ لوگ نومولود ملک پاکستان کو سدھاررہے تھے اور حکیم موصوف دہلی کے نواح میں ہمدرد یونیورسٹی کے لئے زمین جٹانے میں مصروف تھے، لوگ کہہ رہے تھے کہ حکیم صاحب پیسہ برباد کررہے ہیں لیکن یہ ان کی سنجیدہ او رمخلص کوششوں اور عزم محکم کا ہی نتیجہ ہے کہ جامعہ ہمدرد جیسے انہوں نے اپنے دم پر قائم کیا اور اپنے خون پسینے سے سینچا ،کاشمار اب بھارت کے مایہ ناز اور اول درجے کے معاصر تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ معاصر ماہرین تعلیم اور علما کے آپسی تعاون اور باہمی مشاورت سے ہائر سکنڈری کی ساری بنیادی اور ضروری کتب دینی مدارس کے نصاب میں داخل کیا جائے۔ بلاشبہ یہ چیز مدارس کی مروجہ تدریس کے لئے رکاوٹ نہیں بنے گی،بلکہ اس کے برعکس یہ عہد جدید میں اسلامی علوم کے فہم وتفہیم میں ممد ثابت ہوگی، طلبا کے اندر مزید صلاحیت میں اضافہ ہوگا اور وہ نئے ذرائع کی مدد سے اسلام کی تشریح و توضیح کرنے کے اہل بن سکیں گے۔

بلا شبہ مدارس عمومی طور پر ہندوستانی سماج، اور خاص طور سے مسلم سماج کے لئے تعلیم کے میدان میں بونس کا کام کرسکتے تھے ، اور بلامبالغہ کہاجاسکتا ہے کہ اس میں ایک انقلاب برپا کرسکتے تھے۔ غور کیجئے جس قوم کے پاس تعلیمی اداروں کا اتنا بڑا نیٹ ورک ہو وہ تعلیم میں پچھڑے پن کا شکار ہو سمجھ میں نہیں آتا ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں تعلیم اور صحت کے میدان چیلنج بنے ہوئے ہیں ان بنیادی ڈھانچوں کو استعمال (utilize)کرکے ہم سستے سے سستے ریٹ میں بہترین اور معیاری تعلیم فراہم کرسکتے تھے۔ اور ملک کی مین اسٹریم تعلیم کے گراف کو اونچا کرنے میں اہم لاثانی ہوسکتے تھے، لیکن صد افسوس کہ ہم ابھی تک ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکےہیں۔ضرورت ہر گز اس کی نہیں ہے کہ اتنی تعداد میں ایسے مدرسے کھولے جائیں جہاں محض دینی تعلیم دی جائے اور طلبا کو معاصر تعلیم سے بے بہرہ کردیا جائے۔ ہر چیز میں اعتدال کی ضرورت ہوتی ہے اگر اعتدال ملحوظ نہ رکھا جائے تو ہر اچھی او رمفید چیز مضر ثابت ہوتی ہے۔ بالکل ایسا ہی مدارس کا حال ہے کہ وہ خوب کھولے جارہے ہیں جبکہ اور چیز وں کی طرف توجہ بالکل نہ کے برابردی جارہی ہے۔ اگر کسی سماج میں محض دینی تعلیم کے فارغین کی کثرت ہو اور دیگر پیشہ ور (professionals) اتنےہوں کہ انگلیوں پر گنا جاسکے تو اس سماج کا حشر کیا ہوگا اس کا اندازہ پورے عالم میں مسلمانوں کی موجودہ حالت کو دیکھ کر بآسانی لگایا جاسکتا ہے ۔ آج مدارس کے فارغین کی سماج کے اندر حیثیت دیکھ لیجئے کہ سماج ان کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ مدارس، مکاتب اور مساجد میں ان کی تنخواہ کیا ہوتی ہے اور بھی سب پر عیاں ہے۔

مدارس کے طلبا کی تربیت اوران کی نگہداشت کے نام پر جو بے جاسختی کی جاتی ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ لباس ،بال اور  وضع قطع کے نام پر جو بے اعتدالیاں برتی جاتی ہیں اکادمی تربیت کی رو سے وہ بھی کوئی حوصلہ افزاچیز نہیں ہے۔ بعض مدارس میں سختی کا تو وہ عالم ہے کہ سن کر انسان انگشت بدنداں رہ جائے میرے ایک عزیز احمد نذر سلمہ نے بتایا کہ ریاست جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں واقع مدرسہ حسینیہ میں جہاں اس نے حفظ قرآن کیا ہے بچوں پرنظر رکھنے کے نام پرمدرسے کی ہر اس جگہ پر سی ۔سی ۔کیمرے وضع کردیئے گئے تھے جہا ں جہاں مدرسے کی انتظامیہ کو لگا کہ وہاں سے بچوں پر کڑی نگاہ رکھنے کے لئے ان کاک لگانا ضروری تھا حتی کے اس جاسوسی آلے سے public convenience کی جگہوں کو بھی مستثنیٰ نہیں رکھا گیا تھا۔ اور اس نام پر قوم کی گاڑھی کمائی کو بے جامصرف میں بے دریغ خرچ کیا گیا۔ مدرسے کے اساتذہ اور  طلبا کے سخت احتجاج کے بعد بھی انتظامیہ نے اس کو ہیں ہٹایا ۔ بعد میں بعض اساتذہ کی ایما پر طلبا نے چوری چھپے ان جاسوسی کیمروں پر زور آزمائی کر کے ان سے چھٹکارہ پایا۔

گذشتہ سال مارچ 2010میں جب میں اپنے ریسرچ کے کام سے سہارنپور گیا ہوا تھا تو میں نے مدرسہ مظاہر علوم (جدید) میں نوٹس بورڈ پر ایک آویزاں نوٹس پڑھ کر دنگ رہ گیا۔ مدرسہ مذکورہ سے کچھ طلبا کا اسلئے اخراج کردیا گیا تھا کیو نکہ انہوں نے شہر میں کسی مقام پرایک روم کرایہ پر لے رکھا تھا اور اس میں ٹی وی لگا کر کرکٹ میچ دیکھا کرتے تھے۔ کوئی بھی اس بات کے حق میں نہیں ہوگا کہ بچوں کے لئے مدرسے میں ٹی ۔وی کا نظم کیا جائے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچوں نے یہ انتہائی قدم کیوں کر اٹھایا ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری بے جا سختیاں اس کے لئے ذمہ دار ہیں۔ بچوں کو میچ دیکھنے سے روکنے یا انہیں کھیلنے سے باز رکھنے کی کوشش کرنے سے اس طرح کے واقعات پیدا ہوسکتے ہیں ۔ یہ عین فطری بات ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ آخر ہم مدارس کے نونہالوں کو کس جہاں میں کھپا نے کے لئے تیار کررہے ہیں۔ کیا ایسی دنیا کےلئے جہاں ٹی وی جیسی چیزوں کا وجود نہ ہو، جہاں انٹر نیٹ نام کی کوئی چیز پائی نہ جاتی ہو۔ قارئین یہ جانتے ہیں کہ کچھ سال قبل دارالعلوم دیوبند نے فتویٰ دیا تھا کہ ٹی وی پر کسی قسم کا پروگرام حواہ وہ دینی ہی کیوں نہ ہونا جائز ہے۔

(15) اگر کسی ایسے جہاں کی تلاش ہے تو ہم سراب میں پانی ڈھونڈ رہے ہیں  جوشاید ایک احمقانہ ہے۔مدارس کے انتظامی امور کا اگر بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتاہے کہ ان کے انتظامی نظم ونسق کو جمہوری عمل سے گزارنا بھی بے حد ضروری ہے ۔ کسی بھی مدرسے کے لئے نہ ہی یہ موزوں ہے اور نہ ہی منطقی کہ اس کا کسی معلم کا تاحیات ناظم یا مہتمم بنایا دیا جائے ۔ بڑا مناسب ہوا گر ہر مدرسےکے اساتذہ کی زمرہ بندی کردی جائے اور سب سے اعلیٰ زمرے کے ہر استاذ کو باری باری ایک خاص کے لئے اس خدمت پر مامور کیا جائے۔ قابلیت اور سینیئا رٹی کی بنیاد پر اس زمرے میں جو نئیر اساتذہ کو گاہے بہ گاہے شامل کیا جائے ۔ اس عمل سے کئی طرح کے ٹیلنٹ سے مدارس مستفیض ہونگے ۔ اس عمل کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ کسی مدرسے میں اگر کبھی کوئی نااہل منتظم مقرر بھی ہوجائے ، جس کا امکان بظاہر بہت کم ہے ، تو کم از کم وہ تاحیات اس کا ذمہ دار نہیں بنارہے گا۔ ورنہ موجود ہ جو نظام ہے اس کے مطابق تو جو شخص ناظم یا مہتمم بن گیا، چاہے وہ کتنا ہی نااہل کیوں نہ ہو، وہ تاحیات مدرسے کاذمہ دار بنارہتا ہے او رمدرسے کی ترقیات کی راہ میں حائل رہتا ہے۔

خلا صہ کلام یہ کہ مدارس اسلامیہ کی خدمات مسلم ہیں، ان کی ایک قابل فخر تاریخ ہے۔ ان کے جیالوں نے ملک کی آزادی میں جو قابل قدر خدمات انجام دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔ اور ایسے وقت میں جبکہ مغربی تہذیب ،بشمول اپنی بسیا ر خرابیوں کے، مشرقی سماج میں پھیلتی جارہی ہے حتیٰ کہ اس کے منفی اثرات سے اب گاؤں بھی محفوظ نہیں ہیں،یہی مدارس اس کے منفی اثرات کا کسی حد تک سدباب کررہے ہیں۔ میری نگاہ میں مدارس نے اپنا relevance نہیں کھویا ہے، بلکہ ان کی ذمہ داریوں میں اور اضافہ ہوگیا ہے۔ ان ساری خوبیوں کے باوجود پدمدارس کے نصاب تعلیم، طریقہ تدریس وتربیت میں کچھ ایسی خامیاں ہیں، جن کی طرف مضمون میں اشارہ کیا گیا ہے، کی تلافی وقت کی ضرورت اور زمانے کی پکار ہے۔ اگر ہم نے زمانے کے تقاضوں پر کان نہیں دھرااور اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے تو یا درکھئے قوم مسلسل زوال کے گڈھے میں گرتی جائے گی اور اس کے نتیجے میں قوم میں دین سے بیزاری پیدا ہوگی۔ یاد رکھئے اس سب کے لئے ذمہ دار صرف اور صرف ذمہ داران مدارس ہی ہونگے۔

لہٰذا ! اگر مدارس کے ارباب حل وعقد مدارس کی افادیت کو قائم ودائم رکھنا چاہتے ہیں، عوام میں اپنا اعتماد بحال رکھنا چاہتے ہیں ، اسلام اور مسلمانوں کو دینی اور دینوی دونوں اعتبار سے سرخرو اور اپنے پیدا وار کو معیار بنایا جائے اور انہیں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم سے بھی آراستہ کیا جائے۔مسلم دانشوران ،ماہرین تعلیم ،بہی خواہان ملت اور قوم کے مخیر حضرات کے سامنے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ کس طرح سے اس کا زمیں تعاون کر کے مدارس کو اس مشکل سے نکالیں ۔ یہ ان کا ملی ،اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے۔ بغیر ان کے تعاون کے یہ کام پایہ تکمیل تک  نہیں پہنچ سکتا ۔

(1) امیر اللہ خان ،محمد ثاقب ،ظفر انجم ،(http://www.chowk.com/articles/n/6121) ‘’ Madrasah System in India: Past,Present and Future’’

(2) ارشد امان اللہ، (http://madrasa.wordpress.com/2007/03/25/madrasa-in-a-historical-pers pective)Madrasas in India:A Historical Perspective

(3)قرآن ،سورہ بقرہ ، آیۃ 201

(4) الحدیث: ابو لنصر ثنا اللہ مدنی بن عیسی خان ، جائزۃ الاحوذی فی التعلیقات علی سنن الترمذی ، ۲۶/۴، المطبفیۃ ،بنارس ،پہلا ایڈیشن ،2007

(5) اطلبوا العلم من المھدالی اللحد (یہ کسی پرانے عالم کاقول ہے، حدیث نہیں ۔

(6) قرآن سورہ جمعہ ،آیۃ 9۔10

(7) سید سلیمان ندوی ،حیات شبلی، دارالمصنفین ،شبلی اکیڈمی ،اعظم گڑھ یوپی ،ہند ،اکتوبر 2008،ص 178

(8) سید سلیمان ندوی، حیات شبلی، دارالمصنفین ،شبلی اکیڈمی ، اعظم گڑھ یوپی ، ہند، اکتوبر 2008،ص 178۔179

(9) محمد اقبال انصاری ، ‘‘ندوۃ العلما ایک دینی تحریک ،‘‘ اسلام اور عصر جدید ،ماہنامہ اردو ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی ،جلد 7، شمار ہ 2، اپریل 1975،ص 45

Alexander Evens, “Understanding Madrasas: How Threatening Are They?” Foreign Affairs(10)   Vol.85 No.1. jan/Feb.2006, New Delhi, p.9-10

http://webcache.googleusercontent.com/search?q=KY1WgCclpvQJ:www.outlookindia.com(11)

(12) انظر شاہ مسعودی کشمیری ، عصریات ، محدث عصر، ماہنامہ اردو، دیوبند ،جلد 5، شمارہ 9، اپریل ۔مئی 2007،ص 5۔6

(13) محمد طیب قاسمی، خطبات حکیم الاسلام ،جلد 2،ص 478

(14) یہ عبقری اسکالر ہیں جنہوں نے مصنوعی چاند بنایا تھا۔ یہ مصنوعی چاند جبل سنام کے پیچھے ایک کنویں سے نکلتا تھا۔ چاند 2۔3ماہ تک نکلتا رہا ۔ ان کی وفات کے بعد ان کی یہ ساری ٹکنولوجی جبل سنام کے پیچھے دفن ہوگئی، اس  لئے کہ اس ٹکنولوجی کے بارے میں نہ تو انہوں نے اپنے کسی معاصر کو بتایا اور نہ ہی کسی کتاب میں ان کو مدون کرنے کی زحمت کی۔ اس طرح ان کی یہ تاریخی حقیقت ایک افسانہ بن کر رہ گئی۔ مامور اردو شاعر مرزا غالب نے مدرجہ ذیل شعر میں ان کی ٹکنولوجی کی طرف اشارہ کیا ہے( چھوڑ امہ تخشب کی طرح وست قضا نے ۔ خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا) تخشب ترکستان میں  ایک قصبہ ہے۔ اسی نخشب سے چند میل کے مسافت پر جبل سنام واقع ہے جس کے دامن میں وہ کنواں تھا جہاں سے وہ مصنوعی چاند نکلتا تھا۔ (یوسف سلیم چشتی ،شرح دیوان غالب ، ص 368)

مصنف جے این یو ،نئی دہلی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔

htt://www.scribd.com/doc/987313/MUSLIM-FATWA-AGAINST-TELEVISION-VIEWING(15)

http://churumuri.wordpress.com/2007/12/20/television-is-sinful-and-un-islamic-says-new-fatwa/http://www.jihadwatch.org/2007/12/fatwa-against-television-trashed.htm

URL: https://newageislam.com/urdu-section/madrasa-curriculum-point-worry-/d/6143

Loading..

Loading..