New Age Islam
Sun Jan 05 2025, 04:50 PM

Urdu Section ( 18 Jan 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Fatwa That Approves a Complete Hidden Face For Muslim Women Is Non-Islamic کوئی فتویٰ جو مسلم خواتن پر مکمل چہرے کا پردہ (برقع نقاب) کو بطور مذہبی ضرورت مسلط کرتا ہے،وہ غر- اسلامی ہے

محمد یونس، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام   (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن،   نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)

(شریک مصنف) اسلام کا اصل پیغام، آمنہ پبلیکیشن، یو ایس اے، 2009

·        مضمون ذاتی شرم و حیاء سے متعلق  اہم قرآنی آیات کا اصل تجزیہ پیش کرتا ہے جو تصدیق شدہ تشریح سے لیاگیا ہے(1)جو قرآن کے ذریعہ قرآن کی وضاحت کے سب سے زیادہ ترجیحی طریقہ کار پر مبنی ہے۔

·        مضمون آخر میں اس موضوع سے جڑے کئی  اہم سوالوں کے جواب بھی دیتا ہے اور ان کی مذہبی بنیاد کو تلاش کرنے اور اس کی عصر حاضر میں معنویت اور وسیع تر اثرات کی تحقیقات بھی کرتا ہے۔

·        مضمون کسی بھی طرح  سے حال ہی میں متعلقہ شائع شدہ مضامین  اصغر علی انجینئر کا‘ایک فتویٰ جس نے  مسلمانوں میں اضطراب پیدا کر دیا’اور انیس جیلانی کا ‘ پردہ اور اسلام’ میں  دئے گئے مواد یا درج کسی بحث  کی تردید نہیں کرتا بلکہ اسکی  تکمیل کرتا  ہےاور تکنیکی طور پر اس کی حمایت کرتا ہے اور اس پر کچھ نئی بصیرت پیش کرتا ہے اور آخر میں اس ختم نہ ہونے والی بحث کو ختم کرنے کے لئے کچھ اہم نکات اور اعتراضات  دئے گئے ہیں ۔

وحی کے ابتدائی مرحلے میں قرآن اعلان کرتا ہے:

‘اے نبی آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈھانکے اور (تمہارے بدن کو) زینت (دے) اور (جو) پرہیزگاری کا لباس (ہے) وہ سب سے اچھا ہے۔ یہ خدا کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصحیت پکڑ یں’(7:26) (پنکھ کو استعارہ کے طور پر پرندوں کے پنکھ سے اخز کیا گیا ہے)

قرآن مدنی زمانے میں اسے اور واضح کرتا ہے اور (24:30-31) دونوں مومن مردوں اورمومن خواتین کو اپنی نظروں  (جو انہیں نہیں دیکھنا چاہیے) کو ہٹا لینے کے علاوہ اپنی شرم گاہوں کی بھی حفاظت کی بات کہتا ہے۔آیت مومن خواتین سے بھی کہتا ہے کہ وہ اوڑھنیوں کو اپنے سینوں پر رکھیں اورانہیں صرف اس کی اجازت دیتا ہے جو عام طور سے کھلی رہتی ہیں اور اپنی زینت کو اپنےگھر کے لوگوں کے سوا  کسی کے سامنےظاہر نہ کرنے، اور انہیں اشتعال انگیز انداز میں  چلنے سے بھی منع کرتا ہے۔ان ہدایتوں کی مکمل تشریح جو زینت لفظ کے صحیح معنی کے مقابلے عارضی ہوگی اورجو آیت کی تلاوت کے وقت سمجھ میں آئے گا۔

‘مومن مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام یہ کرتے ہیں خدا ان سے خبردار ہے’  (24:30) ، ‘اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش  (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو ان میں سے کھلا رہتا ہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور خسر اور بیٹوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجیوں اور بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈی غلاموں کے سوا نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں  (غرض ان لوگوں کے سوا)  کسی پر اپنی زینت  (اور سنگار کے مقامات)  کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ اور اپنے پاؤں  (ایسے طور سے زمین پر)  نہ ماریں (کہ جھنکار کانوں میں پہنچے اور) ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہوجائے۔ اور مومنو! سب خدا کے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ  (24:31)’

قْرآن کی آیت (24:31) کا لفظی معنی

آیت کے اہم الفاظ اور جملوں کی تشریح درج ذیل میں پیش ہے۔

1۔ زینت: قرآن کئی جگہوں پر اللہ کے تحائف کو بتانے کے لئے زینت اور اس کے دوسری شکلوں کا استعمال کرتا ہے،انسانوں کو لبھانے والی جیسے دنیاوی زندگی  (2:212) ، خواتین، بچوں اور مال و دولت سے لطف  (3:14, 18:46) اورخدا کے ہر طرح کے تحائف (7:32) ۔اس مشابہت  کی بنیاد پر  درج بالا آیت میں زینت کے معنی خدا کی طرف سے عورت کو دیا گیا  خوبصور ت اور لبھانے والا تحفہ ہونا چاہیے اور یہ  صرف اس کی جسمانی خوبصورتی ہو سکتی ہے۔ نہ کہ وہ زیورات جو وہ پہنتی یا نہیں پہنتی ہے۔ یہ نتیجہ اس اجازت کو تقویت پہنچاتا ہے جس میں (1) گھر کے مرد اراکین اور  (2) ان مرد خداموں کے جو عورت کی خواہش نہ رکھیں  اور ان بچوں کے جو عورت کی  جنسیت سے ناواقف ہوں ، ان کی موجودگی میں لاپرواہی سے  نمائش کی اجازت دیتا ہے۔اگر زینت کا مطلب زیورات ہوتا تو یہ ہدایات بے معنی تھیں، کیونکہ:

گھر کے مردوں کو  تقریباً  اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتاکہ گھر کی خاتون اراکین  (بہن،   بیوی ،  ماں،  چاچی وغیرہ) اپنے زیورات کو دکھا رہی ہیں یا چھپا رہی ہیں۔اس ہدایت کا تبھی کوئی مطلب ہے جب  زینت جسمانی خوبصورتی کے معنی میں لیا جائے اور اسے روز مرّہ کی زندگی میں ظاہر ہو ہی جانا ہے۔

·        اگر  زینت کے معنی زیوارت کے ہوتے تو  ہدایت مرد خدام  کے ساتھ ہی  بچوں سے چھپانے کے لئے ہونا چاہیے تھا، کیونکہ اس کی چمک دمک  دونوں کو اپنی جانب متوجہہ کر سکتی ہے۔ہدایت کا تبھی کوئی مطلب ہے جب یہ جسمانی خوبصورتی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور جس میں  دونوں کی کوئی رغبت نہیں ہے۔

2۔ اس سے ظاہر  کیا ہوتا ہے: یہی کہ  شرم و حیاء کی روح  جو قرآنی کی حد میں ہو  اور جس  کی تشریح میں محمد اسد نے القفآل کو حوالہ دیا ہے۔اور عام  طور پر ایک انسان جسکی نما ئش   کر سکتا ہے، (2) ۔

3۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں:  اسلام سے قبل عرب میں   لباس کے قاعدے کے مطابق کئی خواتین اپنے سینوں کو نہیں ڈھنکتی تھیں۔یہ عمل کپڑے کی کمی اور بت پرستوں کی جنسیت کے تئیں کم رجھان دونوں کے سبب تھا۔اس لئے ہدایت یہ تھی کہ جسم کے اوپری حصہ پر اوڑھنیاں رکھیں۔

4۔ اور اپنے پاؤں زمین پر نہ ماریں:  قلت والے معاشرے میں جس وقت خواتین صرف ایک ٹکڑے میں اپنے کو ڈھنک کر رکھتی تھیں اور برائے نام زیوارات پہنتی تھیں، یہ ہدایت خواتین کو اس انداز سے چلنے سے منع کرتی ہیں جو پر کشش   اور بدن کی نما ئش   کرنے والے ہے۔اس ہدایت کے آفاقی تناظر میں جسم کو مناسب ڈھنگ سے ڈھکنے کے علاوہ ان عام خواتین کہ لیےجو اشتعال انگیز انداز میں چلتی ہیں ہدایت ہے ۔

شرم و حياء پر قرانی آیات کی تشریح

آیات  7:26  اور   24:30 کے واضح اعلانات اور آیت 24:31   کا لفظی  تجزیہ جسے درج بالا میں پیش کیا گیا یہ ظاہرکرتا ہے کہ  کسی بھی عوامی مقام  پر آتے ہی قرآن ، مردوں اور عورتوں کو ان کی نظروں کو نیچے کرنےاور اپنی  شرمگاہوں کو ڈھانکنے کی ہدایت دیتا ہے قرآن بھی مردوں کی ان  فطری قوتوں  کی تفصیل بیان کرتا ہے جن سے  ایک عورت کے ذریعہ  جسم کی نما ئش  کرنے والے کپڑوں سے جنسی خواہشات میں اشتعال پیدا ہوتا ہے ۔ اس لئے خواتین کو سیدھے سادھے طریقے کے لباس پہننے کے لئے کہا جاتا ہے جو عام طور پر  خواتین کو اشتعال انگیز بنانے والا نہ ہو ۔ سر سے لے کر پائوں تک کے کسی پردے (برقعہ، نقاب)، سر کو ڈھانکنے اور صنف کی بنیاد پر  الگ تھلگ کرنے  کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

تاہم ،مشترکہ خاندان کی رہائش کے  معاملے میں ،اگر انجانے میں قریبی رشتہ داروں جیسے اس کے والد، خسر،  بھائیوں،  بھتیجوں،  بچوں اور بزرگ مرد خداموں کے سامنے خواتین کی قدرتی زینت  کی نمائشا ہو جاتی ہے تو اس  کے سبب خواتین پر کوئی الزام نہیں ڈالا جائے گا۔

قرآن   کی اس  موضوع ہے پر دو مزید آیات  ہیں جن کی وضاحت کئے جانے کی ضرورت ہے۔

عمر رسیدہ عورتوں کو  ملی رعایت کے بارے میں:

‘اور بڑی عمر کی عورتیں جن کو نکاح کی توقع نہیں رہی، اور وہ کپڑے اتار کر سر ننگا کرلیا کریں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ اپنی زینت کی چیزیں نہ ظاہر کریں۔ اور اس سے بھی بچیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے۔ اور خدا سنتا اور جانتا ہے  (24:60)۔’

وضاحت : تاریخی تناظر میں ، دنیا کے زیادہ تر حصوں میں عام لوگوں کے  پاس جو وہ پہنے رہتے ہیں اس کے علاوہ بمشکل ہی کوئی اضافی لباس  ہوتاتھا اور یہ لوگ  با ادب طریقے سے عوامی کپڑے دھونے اور غسل کرنے کی سہولیات کا استعمال  کرتے  تھے۔یہ آیت ایسےبزرگ خواتین کی طرف  اشارہ کرتی ہے جو اضطراری  طور پر اپنی  جنسیت پر   کم توجہہ دیتی ہیں۔ وہ اپنے روز مرہ کےکام کاج کے لئے جا سکتی ہیں اور اس کے لئے انہیں اپنی جسمانی خوبصورتی (زینت) کو ظاہر کرنے کا موردالزام ٹھہرایا نہیں جا سکتا ہے۔

2۔ نبی کریمﷺ کے گھر کی اور دیگر مسلم خواتین کے لئے لباس کی ہدایات

ایک آیت میں یہ واضح طور پر  پیغمبر محمد ﷺ سےکہا گیا ہے کہ، وہ اپنے گھر کی اور دیگر مومن عورتوں سے یہ کہہ دیں کہ  وہ گھر سے باہر نکلتے وقت اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں تاکہ وہ پہچانی جاسکیں اور اور کوئی انہیں ایذا نہ پہنچا پائے (33:59) ۔

‘اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ  (باہر نکلتے وقت)  اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں،  یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں  (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں)  پھر انہیں  (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے،  اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے’۔ (33:59)

مخصوص وقت میں نبی  کریم ﷺ کی بیویوں اور بیٹیوں کو ہدایت کرتے وقت  دانستہ طور پر یہ واضح نہ کرنا کہ  جسم کا کون سا حصہ ڈھنکا ہوا ہونا چاہیے، یہ واضح کرتا ہے کہ  آیت میں ایک عام اخلاقی یدایت ہے اور جسے خدا کی صفات رحم کرنے والے اور بخشنے والے سے تقویت ملتی ہے(3). مزید براں، یہ آیت واضح طور پر چہرے کے پردے  سے منع کرتی ہے، کیونکہ اس سے ان کے پہچانے جانے میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔

پس نوشت:

اس نہ ختم ہونے والی بحث کو ختم کرنے کے لئےکچھ چبھتے سوالات کا جواب دینا ضروری ہے۔

سوال1۔عام مسلم عورتوں کے لئے پردے کا تصور اسلام میں کیسے داخل ہوا؟

جواب: اسلام کے ظہور سے قبل تک خواتین مظلوم تھیں اور  عملی طور پرتمام اہم تہذیبوں میں خواتین پر مختلف اقسام کی پابندیاں تھیں۔اس لئے اسلام قبول کرنے والے تمام عیسائیوں (بشمول رومیوں اور یونانی)،  پارسیوں،  بت پرستوں اور ہندو اپنے ساتھ  اپنے پرانے مذہب  میں موجود خواتین مخالف تصورات کو بھی اپنے ساتھ لے آئے۔ جس نے لامحالہ شرم و حیاءکی  تعلیمات پر قرآن کی تشریح    کو متاثر کیا۔وقت کے ساتھ ساتھ اس نے خواتین پر مختلف پابندیوں کے نفاذ کو جنم دیا جس میں گھر سے باہر نکلنے پر  مکمل پردہ اور الگ تھلگ رہنا شامل تھا۔ یہ ایک رسم تھی جس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ یہ بیزنٹیم کے یونانی عیسائیوں سے لی گئی  ، جو اپنی عورتوں   کواس طرح پردے میں  اور الگ تھلگ رکھتے تھے (4)۔

سوال2۔ پردہ پر قدامت پسند نقطہ نظر کی بنیاد کیا ہے؟

جواب : قدامت پسند علماء کرام قرآن کی آیت  24:31میں  لفظ زینت  کی تشریح زیور کے طور پر کرتے  تھے جو خواتین اپنی خوبصورتی میں اضافہ کرنے کے لئے پہنتی تھیں۔ان لوگوں کی دلیل تھی کہ چونکہ خواتین گردن،  کان،  بازئوں اور ہاتھوں میں زیورات پہنتی ہیں اس لئے جسم کے ان حصوں کو ڈھانک کر رکھنا چاہیے اور اس طرح ان لوگوں نے سر سے لے کر  پیر تک کے پردے کی  وکالت کی  (5)۔ وہ ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہیں جس میں نبی کریم ﷺ نے  اپنی بہن  حضرت اسماء ؓ  سے فرمایا کہ، ‘چہرے اور ہتھیلیوں کے سوا ایک نوجوان لڑکی کے جسم کا کو ئی حصّہ نہیں نظر آنا چاہیے (6)’۔ لیکن (1) اس حدیث کے موئلف (ابو دائود) نے خود اس کو ایک کمزور حدیث کے درجے میں رکھا ہے۔ (2) اس حدیث کا ذکر پہلے کے اماموں، امام بخاری،  امام مسلم نے نہیں کیا ہے اور (3) یہ ایک ایسے لباس کو نافذ کرتا ہے جو قلت کے اس زمانے میں  رائج تھا جس کے  بارے میں کئی احادیث میں اس کا اشارہ ملتا ہے (7)۔ اوراس وقت مروجہ روایت جس کے تحت مرداور عورتیں بغیر سلا ہوا کپڑے  اپنے جسم کے چاروں طرف  لپیٹ لیا کرتے تھے(8)۔ اس طرح روایت  کی قدیم تشریح کے مستند  ہونے پر کئی سوال اٹھتے ہیں۔ اس طرح زینت لفظ کا روایتی معنی زیورات سے ہی ہیں، جو  قدیم تشریح کے لئے بنیاد فراہم کرتا ہے اور  جسے تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔

سوال3۔  کیا مسلم خواتین کو  پردہ  /سر پر اسکارف لگانا چاہیے؟

جواب: پہلے جواب کی بنیا د ایسی ہے   جسے ردنہیں کیا جا سکتا  ، قرآن عورتوں  کا ولی مردوں کو  نہیں بناتا ہے  اور توقع رکھتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے دوست  اور محافظ کے طور پر رہیں گے (اولیاء ، 9:71)۔اس لئے مضمون نگار صرف اپنی رائے دے سکتا ہے  جسے کوئی بھی خاتون چاہے تو قبول کرے یا مسترد کرے، جیسے کہ وہ ایک فتویٰ کو قبول یا مسترد کرتی ہیں، جو ایک عالم کی قانونی طور پر غیر لازمی رائےسے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اب میں سوال کا رخ کرتا ہوں :

ایک مسلم خاتون جو  سعودی عرب ،ایران یا کسی مسلم اکثریت/اقلیت والے ملک کے دیہی علاقوں میں رہتی یا ان کا سفر کرتی ہیں جہاں خواتین پردہ/اسکارف ایک روایت کے طور پر پہنتی ہیں، اگر وہ بھی ویسا ہی کرتی ہیں تو یہ ان کے لئے بہتر ہوگا۔ لیکن  اگر وہ ایسے مقام  (جیسے مغربی ممالک میں)  پر رہتی یا اس جگہ کا سفر کرتی ہیں جہاں خواتین بغیر کسی پردے یا اسکارف کے گھر سے باہر نکلتی ہیں تو ایسی جگہ پر وہ غیر ضروری توجہہ کا مرکز بنیں گی اور یہاں تک کہ روایتی پردہ یا اسکارف پہننے کے سبب ان پر شک کیا جا سکتا ہے۔

سوال 4۔ مسلمان عورتوں کو اگر ان کی خواہش ہو تو پردہ /سر کا اسکارف پہننے کے لئے اپنے حق پر زور کیوں نہیں دینا چاہیے؟

جواب: بے شک وہ کر سکتی ہیں لیکن مغرب میں بڑھتی ہوئی اسلام  ہراسی  (اسلامو فوبیا) ،  اور عام طور پر مسلمانوں کے خلاف تعصب کے تناظر میں ، ممکنہ طور پر اس کے منفی اور  مضر اثرات ہو نگےجو ذیل میں دیئے گئے ہیں، وہ مغربی ملکوں (اور بہت سے مسلم اقلیت کے ممالک کے شہری علاقوں میں) میں رہنے والی  کسی بھی سمجھدار مسلمان خاتون  کی  پردہ /سر کا اسکارف پہننے کی حوصلہ شکنی کرے گا سوائے طبی وجہ کے (مثال کے طور پر کم ہوتے سر کے بال کے سبب)

§        اس  کی انفرادیت مسلمانوں  کی بڑاھا چڑھا کر پیش کی گئی تعداد کا تاثر دےسکتا ہے جودھمکی کا باعث بن سکتے ہیں یا نفرت  کے سبب ہونے والےجرم کو دعوت دے سکتے ہیں۔

§        قرون وسطی کے پوپ کے کپڑے  سے اس کے ملتے جلتے ہونے کے سبب  ایک سماجی رکاوٹ پیدا کرتا  ہے اور ایک غیر مسلم عورت (یاایک مسلمان عورت) جو اپنے سر اور کان کو بے نقاب کرکے جا رہی ہو اور ایک عورت جو وردی کی طرح کا پردہ پہن کے جا رہی ہے اس سے لاتعلقی پیدا کرے گی۔

§        اسلام مخالف ،سخت  متعصب  اور  خالص مغربی تہذیب والے ملک میں  یہ گروہ بندی کا غلط تاثر دے گا اور یہاں تک کی عوامی مقامات میں  پردے والی مسلم خواتین کی بہت کم تعداد بھی  وہاں کے مقامی لوگوں میں  ثقافتی حملے کا خوف پیدا کرے گا (9)۔

§        یہ کچھ کام  کاج کرنے والی اور ساتھ ہی ساتھ  کھیلوں میں شرکت کرنے والی ، تیراکی اور اتھلیٹکس میں حصہ لینے والی خواتین کے لئے جسمانی طور پر سہولت بخش نہیں ہوگا اور یہ قدرتی طور پر سر اور کانوں کے ارد گرد ہوا کے آنے جانے کے نظم  میں رکاوٹ پیدا کرے گا۔

§        مردوں کے قبضے والے  عوامی مقامات میں خواتین کو مخصوص طور پر حفاظت فراہم کرنے کے بنیادی کام کو  یہ کھو  چکا ہے۔ آج ، امریکہ یا یوروپ کے کسی بھی سڑک یا گلی میں ایک مسلمان عورت شاید  پردہ / ہیڈا سکارف کے مقابلے ان کےبغیر زیادہ  محفوظ ہے۔

§        قران ‘ کسی بھی  باہری  سر سے پیرتک کے پردہ (برقع)پہننے  ، چہرے کا پردہ (نقاب) کرنے، سر کے ڈھکنے’ کی وضاحت نہیں کرتا ہے۔

§        چہرے کے پردے پر الازہر یونیورسٹی  اور فرانس میں عوامی مقامات  سمیت کئی جہگوں پر پہلے سے ہی پابندی ہے ،اس کے علاوہ ، یہ  خواتین کے چہرے کے پردے کے متعلق قرآن کی واضح ہدایت کے خلاف ہے جو خواتین کو پہچانے جانے کی بنیاد پر چہرے کو کھلا رکھنے کی ہدایت دیتا ہے (33:59) ۔

سوال 5۔عورتوں کے پردےپر‘فتوی’ کے بارے میں کیا خیال ہے؟

جواب :  فتوی ایک یا ایک سے زائداحادیث کی بنیاد پر قائم کی گئی  ایک عالم کی ذاتی رائے ہے۔ تاہم ، کوئی بھی فتویٰ یا حدیث جو قرآن کے واضح اعلان کے بر عکس ہو اسے قرآن کے حکم  مقابلے نظر انداز کیا جانا چاہیے۔ صحیح  بخاری  میں درج  ایک حدیث میں حضرت عائشہؓ سے ایک حدیث کی روایت ہے جس میں نبی کریم ﷺ  نے اعلان کیا ہے:

 ‘لوگ کیوں وہ شرائط مسلط کرتے ہیں جس کا ذکر اللہ کی کتاب (کتاب اللہ) میں نہیں ہے؟جو کوئی بھی ایسی شرائط عائد کرتا ہے جو اللہ کے قانون  (کتاب اللہ)میں نہیں ہے، تو ایسےشرائط باطل ہیں، حتیٰ کہ ایسی سو شرطیں بھی باطل ہو نگی   ، کیونکہ اللہ  کی شرطیں (جیسا کہ قرآن میں بیان کیا گیا ہے)  سچی اور درست ہوتی ہیں (10)۔’

لہذا ، جیسااس مضمون اور حوالے کے طور پر پیش  دیگرمضمون میں  بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو  ان موضوعات پر مولوی اور مذہبی عالم حضرات  کیا فتوی  جاری کر رہے ہیں اس سے زیادہ یہ فکر ہونی چاہیےکہ اس بارے میں  قرآن کیا کہتا ہے ۔

نتیجہ: قرآن مردوں اور عورتوں کو  عشق باز/ فحش نظروں سے  دیکھنے سے منع فرماتا ہے۔ جو عورتیں آسانی سےمرد میں جنسی طور پر اشتعال پیدا کر سکتی ہیں انہیں بہ ادب لباس پہننے کے لئے کہا جاتا ہے، جو مروجہ روایت کے مطابق ہو اور جو انہیں غیر اشتعال انگیز انداز میں رکھے۔سر سے لے کر پیر تک پردہ،  برقعہ،  نقاب،  سر کو ڈھنکنے اور جنس کی بنیاد پر الگ تھلگ کرنے کی وضاحت نہیں کی گئی ہے،  اس کے باوجود خواتین  اسے پہن سکتی ہیں  اور اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ  اس جگہ پر لباس کا معیار کیا ہے۔

یہ امید  کی جا سکتی ہے کہ  پردہ/سر کے اسکارف کے متعلق صدیوں سے جاری غلط فہمیوں کا ازالہ اس مضمون کے ذریعہ ہو جائے گا جو اسلام اور اسلامی تنقیدی مباحثوں پر غالب ہیں۔ حالانکہ  مسلم خواتین کی پہچان  سر کو ڈکھنے   میں ہی ہے جوبہر حال ایک ادھار لی گئی رسم ہے۔

نوٹس:

1۔ محمد یونس اور اشفاق اللہ سید ، اسلام کا اصل پیغام، آپنہ پبلیکیشن، یو ایس اے، 2009

2۔ محمد اسد ، قرآن کا پیغام ،جبرالٹر 1980 ،چیپٹر 24 ، نوٹ 37

3۔ ایبید ، چیپٹر 33 ، نوٹ 75

4۔ کارین آرمسٹرانگ ، اسلام: ایک مختصر تاریخ ، نیو یارک 2002 ، صفحہ 16

5۔ محمد شفیع ، معارف القرآن ، نئی دہلی 1993 ،والیوم۔6، صفحہ 396

6۔ سنن ابو داؤد ،اردو ترجمہ۔وحید الزماں ،ولیوم۔ 3 ،چیپٹر۔ 26، اکسیشن 704،صفحہ 264

7۔ صحیح بخاری ، انگریزی ترجمہ ۔محسن خان ، نئی دہلی 1984 ،والیوم۔ 1 ،ایکسیشن  305 ، 309 ، 358-348 ، 360 ، 361 ، 366

8۔ایبید، والیوم۔1 ،ایکسیشن 358

9۔ 2010 بین الاقوامی گیلپ سروے (امریکہ) کے مطابق،‘ 43%امتیکیوں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ وہ اسلام کے ماننے والوں کے تئیںمتعصب ہیں اور ان میں سے 9%نے مانا تھا کہ وہ بہت زیادہ متعصب محسوس کرتے ہیں:’

www.gallup.com/poll/.../religious-prejudice-stronger-against-muslims.aspx.

10۔ صحیح بخاری ، انگریزی ترجمہ۔محسن خان ، نئی دہلی ، 1984 ، والیوم۔ 3 ، اکاؤنٹ۔ 364 ۔735

محمد یونس نے آئی آئی ٹی سے کیمیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے اور کارپوریٹ اکزی کیوٹیو کے عہدے سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور90کی دہائی سے قرآن کے عمیق مطالعہ اور اس کے حقیقی پیغام کو سمجھنے  کی کوشش کر رہے ہیں۔ان کی کتاب اسلام کا اصل پیغام کو 2002میں الاظہر الشریف،قاہرہ کی منظوری حاصل ہو گئی تھی اور یو سی ایل اے کے ڈاکٹر خالد ابو الفضل کی حمایت اور توثیق بھی حاصل ہے اور محمد یونس کی کتاب اسلام کا اصل پیغام آمنہ پبلیکیسن،میری لینڈ ،امریکہ نے،2009میں  شائع کیا۔

URL for English article: https://www.newageislam.com/islamic-sharia-laws/muhammad-yunus-newageislamcom/any-fatwa-imposing-full-face-veil-burqa-niqab-headscarf-on-muslim-women-as-a-religious-requirement-is-anti-quranic/d/6073

URL: https://newageislam.com/urdu-section/fatwa-that-approves-complete-hidden/d/6409

Loading..

Loading..