سلطان شاہین، ایڈیٹر، نیوایج اسلام
اسلامی قانون کے باوجود شاید 'اسلامی' ریاستیں اقلیتوں کے مذہبی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزی کرنے والے ہیں
اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل 19واں سیشن، جنیوا – 27 فروری - 23مارچ ، 2012
ایجنڈا آئٹم 9: نسل پرستی، نسلی امتیازی سلوک، غیر ملکیوں سے نفرت اور عدم برداشت کی متعلقہ شکلیں، ڈربن اعلامیہ پر عمل در آمد، آگے کی کارروائی اور لائحہ عمل
سلطان شاہین، ایڈیٹر، نیوایج اسلام کی تقریر
(یونائٹیڈ اسکولس انٹر نیشنل کی جانب سے)
خطاب کا مکمل متن
میڈم چیئر،
ڈربن اعلانیہ کو قبول کئے ہوئے دس سال اور 1992 میں تمام ملکوں کی طرف سے اقلیتوں کے حقوق پر اقوام متحدہ کے اعلانیہ کو تسلیم کئے جانے کے بیس سال گزر چکے ہیں۔ جیسا کہ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق میڈم نوی پلّئی نے ہمیں یاد دلایا ہے، ہم اس اعلان کو اپنانے کی 20ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ کئی ممالک جو مصنوعی طور پر اقلیتوں کے حقوق پر مکمل عمل کی بات کرتے ہیں، اس کا کوئی اثر نہیں پڑا ہے اور ابھی تک عملی طور پر معمولی سا بھی عزم نہیں دکھا یا ہے۔ شاید دنیا میں آج اقلیتوں کے مذہبی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزی کرنے والے کچھ مسلم اکثریت والے ممالک ہی ہیں۔
سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک میں، مثال کے طور پر کوئی بھی مذہبی اقلیت اپنی عبادت کی جگہوں کی تعمیر نہیں کر سکتے ہیں۔ اور ایسا تب ہے جب نہ صرف بین الاقوامی کنونشنز جس پر انہوں نے دستخط کئے ہیں، بلکہ مذہب اسلام، جسے وہ اپنا ہونے کا دعوی کرتے ہیں، وہ بھی اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ سورہ نمبر 2 : آیت 256، میں قرآن فرماتا ہے کہ: " لَآ اِکراہَ فی الدّین" (دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔) یہ کیسا مسخرا پن ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے، ایسےلوگ جو قرآن سے مسلسل رہنمائی حاصل کرنے کا دعوی کرتے ہیں، خود ان کے حقوق کے بدترین خلاف ورزی کرنے والے ہیں۔
اسی طرح جب سے کونسل کا موجودہ 19واں سیشن شروع ہوا، جیسے کہ اقلیتوں کے حقوق کے اعلامیہ کی 20ویں سالگرہ کی تقریبات کو مذاق بنانے کے لئے، شاید ایسا ایک بھی دن نہیں گزرا ہے جب پاکستان سے ہندو لڑکیوں کے اغوا ہونے، زبردستی اسلام قبول کرنے اور اس سے بھی قبل شادی کے نام پر عصمت دری کی رپورٹیں نہ آئی ہوں۔ پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن(ایچ آر سی پی) نے 11 مارچ، 2012 کو بتایا ہے کہ جنوبی صوبہ سندھ میں اوسطاً تقریباً 20 سے 25 ہندو لڑکیوں کو ہر ماہ زبردستی اسلام قبول کروایا جا رہا ہے۔
کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے پاکستان اقلیتوں کو مارنے کی وبا کا شکار لگتا ہے۔ اگر وہ خود کے اپنے مذہب پر عمل نہیں کر سکتے ہیں تو، یہ وقت ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل ان ممالک کو اقوام متحدہ کے کنونشن پر کئے گئے ان کے اپنے دستخط کا احترام کرنے کی یاد دہانی کرائے۔
ایسا نہیں ہے کہ انسانی حقوق کے ادارے ان سنگین خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ میں اکیلے ہیں۔ پاکستان انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کو حکمراں پاکستان پیپلز پارٹی کی ایک قانون ساز، عذرا فضل پیچوہو نے تصدیق کی ہے جو پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کی بہن ہیں۔ انہوں نے 15 مارچ کوکہا کہ ہندو لڑکیاں زبردستی مدارس میں رکھی جاتی ہیں اور مسلمانوں سے شادی کرنے پر مجبور کی جاتی ہیں۔ ان کا یہ تبصرہ اس تناظر کے خلاف آیا ہے جس میں پاکستانی حکام کو سپریم کورٹ نے سندھ میں اغوا ہوئی تین ہندو لڑکیوں کو پیش کرنے کی ہدایت دی تھی۔
اور یہ صرف ہندو ہی نہیں ہے اور عیسائیوں کی تو بات ہی چھوڑ دیجئے جو پاکستان میں انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ پاکستان کے سیکولر فورم کے چیئرمین دلشاد بھٹو نے پاکستان میں شیعہ لوگوں کے قتل عام کی سخت مذمت کی اور کہا کہ وفاقی، صوبائی حکومتیں اور پولیس احمدیوں، شیعہ، عیسائی اور ہندو سمیت مذہبی اقلیتوں کے ارکان کی حفاظت کرنے میں اکثر ناکام ہو رہی ہیں۔
یہ نہ صرف مسلم اکثریت والے ان ممالک بلکہ ہمارے مذہب اسلام کی شبیح کو خراب کر رہاہے ، اور جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں کئی غیر مسلموں کے ذہنوں میں اسلام کے تئیں خوف پیدا کر رہا ہے۔ میں عالمی برادری کے نمائندوں کو ذہن نشین کرنا چاہوں گا کہ ہمارا مذہب اسلام تمام مذاہب کے پیروکاروں کے حقوق کے تحفظ کا پوری طرح حمایت کرتا ہے۔
درحقیقت، اسلام کی آمد کے 13 سال بعد، قرآن جب سب سے پہلے مسلمانوں کو ہتھیاروں کے ساتھ خو د کی دفاع کی اجازت دے رہا تھا تو اس نے سبھی کی مذہبی آزادی، یہودیوں، عیسائی، ہندوئوں اور مسلمانوں کی مذہبی ازادی کے تحفظ کی ہدایت کی تھی، نہ کہ صرف مسلمانوں کی مذہبی آزادی کی۔
قرآن نے 22ویں سورۃ اور آیت نمبر میں 40 فرمایا ہے: "اور اگر اﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ (جہاد و انقلابی جد و جہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے"۔ یہ واضح طور پر مسلمانوں کے مذہبی فریضہ کے طور پر، ان کے پاس جو بھی زرائع ہیں ان سے وہ مذہبی گروپوں کے حقوق، گرجا گھروں، کلیسے، خانقاہوں، مندروں اور مسجدوں کی تعمیر اور خدا کی عبادت میں مدد کرنے کو ضروری بناتا ہے۔
مثال کے طور پر، سعودی عرب میں، طالبان کے کنٹرول والے پاکستان کے علاقوں اور نا ئجیریا میں بوکو حرام کے قبضے والے علاقوں میں، مذہبی یا فرقہ وارانہ اقلیتوں کے لئے اپنی عبادت کے مقامات کی تعمیر کر ناممکن ہے اور اپنے مذہب پر آزادانہ طور پر عمل کی بات نہیں کر سکتے ہیں۔ میرے مطابق، درج بالا قرآنی آیات مسلمانوں پر یہ لا زمی کر دیتی ہیں کہ، اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لئے اپنی ممکنہ صلاحیت اور وسائل میں جدوجہد کریں۔ ہمیں کم سے کم ان علاقوں کے حکام کو جو مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں انہیں قرآن پر اس کے اصل روح کے مطابق عمل کرنے کے لئے قائل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور دنیا میں پہلے سے ہی موجود اسلام ہراسی (اسلامو فوبیا) میں اضافہ کرنا بند کرنا چاہئے۔
بہت سے غیر مسلم اقلیتوں کے مذہبی حقوق کی کمی کی ایک کی وجہ یہ ہے کہ بعض مسلم ممالک اپنی ریاستوں کے لئے شہریت کا تصور نہیں رکھتی ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ایک مہاجر کئی دہائیوں تک ان ممالک کی خدمت کرتا ہے تو وہ اسے مستقل رہائش کا بھی حق نہیں دیتے ہیں، شہریت کی تو بات ہی مت کیجئے۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے عمل کے برعکس، ان لوگوں نے 100 فیصد مسلم ریاستوں کا تصور تیار کیا ہے۔ جیسا کہ ان ریاستوں کے نمائندے اقوام متحدہ کی اس پر وقار فورم میں موجود ہیں، میں ان سے گزارش کروں گا کہ وہ پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جو پہلا اسلامی آئین ہمارے لئے جھوڑ گئے ہیں ان کی دفعات کا مطالعہ ضرور کریں۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جس اسلامی ریاست کو قائم کیا تھا وہ اصل میں ایک سیکولر ریاست تھی۔ اسے میثاق مدینہ نامی کنونشن کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا۔ یہ ایک سیکولر ریاست قائم کرنے کے لئے یہودیوں اور دیگر مذہبی طبقوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاہدے پر مبنی تھا۔
اس کی کچھ شاندار دفعات، جن سے ان لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئے جو اسلامی ملکوں کو چلانے کا دعوی کرتے ہیں، وہ یہ تھیں:
• مدینہ (جو کہ ایک کثیرثقافتی شہر تھا اور جس میں مختلف فلسفے، خاص طور پر یہودی، مسلمان، مشرک اور ملحد بھی رہتے تھے) ایک ملک تھا نہ کہ اسے مذہبی ملک قرار دیا گیا تھا۔اس کی پوری آبادی کو امّت کہا جاتا تھا‑ ایک لفظ جو اب صرف مسلمانوں کے لئے خصوصی طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
• کوئی مذہبی گروہ دوسروں پر اپنے مذہبی قوانین (یعنی شریعت) مسلط نہیں کر سکتا تھا، جن کا عقیدہ ان کے جیسا نہیں ہوتا تھا۔ ایسی صورت میں سول قانون پر عمل ہوتا تھا۔
• مسلمانوں نے وعدہ کیا تھا کہ جو کوئی بھی مدینہ، یا مدینہ میں رہنے والے کسی بھی طبقے پر حملہ کرتا ہے، تو وہ اس کے خلاف جنگ کریں گے، یہاں تک کہ اگر حملہ آور مسلمان بھی ہوں تب بھی۔ (ایسا ہی دیگر مذہبی گروہوں پر بھی اطلاق ہوتا تھا)۔
جبکہ پاکستان میں گوجرہ (اگست 2009) میں عیسائیوں کے قتل پر اپنے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے، ایک معروف اسلامی اسکالر مولانا محمد طاہرالقادری نے کہا کہ: "یہ مناسب وقت ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں اور اقلیتوں کے بارے میں اسلامی تعلیمات سے رجوع کریں"۔ ان کے بیان کے بعد اس مسئلے پر پاکستانی علماء نے قرآن اور حدیث کے اقتباس کو مرتب کیا۔ میں یہاں کچھ حوالہ جات پیش کر رہا ہوں جو اسلام کے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے عزم کے بارے میں بعض مسلم ممالک کے طرز عمل کی وجہ سے عالمی برادری کے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں پیدا شک و شبہات کی وضاحت کرے گا۔
اسلامی نظریے پر اس عالم کا کہنا ہے کہ: "اسلام عالمی بھائی چارے، رواداری اور باہمی پر امن بقائے باہمی کی حمایت کرتا ہے اور اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنے ارد گرد کے لوگوں کے لئے امن کا ذریعہ بنیں۔ اس طرح اس کا مقصد ایک مثالی ریاست اور سماج قائم کرنا ہے، اس سے قطع نظر کی ان کا تعلق، مذہبی شناخت، نسل، رنگ کیا ہے، جہاں تمام شہریوں کے یکساں حقوق ہوں اور قانون کی نظر میں سب برابر ہوں۔ قرآنی حکم "دین میں کوئی جبر نہیں ہے" (2:256) مذہبی معاملات میں زبر دستی اور دبا کے رکھنے سے انکار کرتا ہے اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے بنیاد بناتا ہے۔ ایک اور مقام پر قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ: "( سو) تمہارا دین تمہارے لئے اور میرا دین میرے لئے ہے"۔ (109:6)
اسلام اقلیتوں کے حقوق کو جو اہمیت اور تقدس دیتا ہے اس کا اندازہ نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد سے لگایا جا سکتا ہے: "خبردار! اگر کسی نے اقلیتی طبقے کے کسی رکن پر ظلم کیا یا اس کے حقوق صلب کئے یا اس کی برداشت کی حد سے زیا دہ تشدد کیا یا اس کی مرضی کے بغیر کچھ اس سے زبر دستی لے لیا تو قیامت کے دن ( ایسے مسلمانوں کے خلاف) اس کی طرف سے میں لڑوں گا"۔(ابو دائود 3:170)
"یہ نہ صرف ایک انتباہ ہے، بلکہ اسے قانون کی حرمت بھی حاصل ہے، جسے حضور نبی کریم ﷺکے مبارک زمانے کے دوران اسلامی ریاست میں نافذ کیا گیا تھا اور جو بعد کی مدت میں بھی لاگو رہا اور اب بھی اسلامی ریاست (پاکستان ) کے آئین کا ایک حصہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں مسلمانوں کو ہمیشہ ہی پہلے سے باخبر کیا گیا ہے، اقلیتوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک دن آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: "جو کوئی بھی اقلیتی طبقےکے کسی رکن کو مارے گا، وہ جنت کی خوشبو سونگھ نہیں پائے گا، حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی دوری طے کرے گی۔" (ابن رشد، بدیعۃ المجتہد، 2:299)
"جب بھی غیر مسلم وفد حضور ﷺ سے ملنے آیا، ان کی مہمان نوازی خود آپﷺ نے کی۔ ایک بار جب حبشہ (Abyssinia) سے ایک عیسائی وفد با برکت شہرمدینہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مہمانوں کی میزبانی کے فرائض ادا کئے اور انہیں اپنی مسجد میں قیام کرایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: "یہ اصحاب ہمارے صحابہ کے لئے ممتاز اور مراعات یافتہ طبقے کی حیثیت رکھتے ہیں، لہذا، میں نے ان کا احترام اور خود مہمان نوازی کرنےکا فیصلہ کیا ہے۔" (ابن کثیر، سیرت النبویہ، 2:31)
"اسی طرح، نجران سے ایک اور 14 رکنی مسیحی وفد مدینہ کے مقدس شہر میں آیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد کو اپنی مسجد میں قیام کرایا اور وفد کے عیسائیوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں ان کے مذہب کے مطابق عبادت کرنےکی اجازت عطا کی۔ (ابن سعد، طبقات الکبری، 1:357)
" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک اس طرح کا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے ساتھ بات چیت بھی احترام اور عزت کی بنیاد پرتھی۔ جب ایک حلیف یہودی جو جنگ کے دوران مرنے والا تھا تو لوگوں نے اس سے اس کی بہت بڑی جائیداد کے لئے ممکنہ وارث کے بارے میں پوچھا، تو اس نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی جائداد کے ولی ہوں گے۔ یہ بتاتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا غیر مسلموں کی نظر میں کس قدر احترام تھا۔
امام ابو یوسف اپنی عظیم تخلیق 'کتاب الاخراج' میں لکھتے ہیں کہ مسلمان اور غیر مسلمان اقلیتیں دونوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفاء راشدین کے زمانے میں سول قانون اور سزا سے متعلق قانون کے معاملے میں یکساں طور پر برتائو کیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ ایک مسلمان نے ایک غیر مسلمان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قتل کر دیا۔ قصاص کے تحت اس مسلمان کو قتل کرنے کا حکم آپﷺ نے صادر فرمایا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ: "غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے۔" (شافعی المسند، 1:343)
"اس طریقے سے، ایک اسلامی ملک میں سول قانون میں ایک مسلمان اور ایک غیر مسلم کی حیثیت برابر ہے۔ غیر مسلم بھی اسی سزا کا حقدار ہے جس جرم کوکرنے کی صورت میں ایک مسلمان جس سزا کا مستحق ہوگا۔ چاہے ایک غیر مسلم ایک مسلمان کی کوئی چیز چراتا ہے یا ایک مسلمان کسی غیر مسلم کے ساتھ ہی ایسا برتائو کرتا ہے دونوں برابر سزا پانے کے مستحق ہوں گے۔ قانون کی نظر میں ان کے ساتھ برتائو میں کسی طرح کاکوئی امتیاز کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔
"اسلامی تعلیمات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کے برعکس، ہمارا اصل طرزعمل شرمناک ہے، جو مذہب اسلام کی بدنامی کے لئے ذمہ دار ہے۔ گوجرہ میں جو دیکھا گیا، کوئی بھی سمجھدار مسلمان اس طرح کی مذمتی کارروائی کی نہ تو منظوری دے سکتا ہے اور نہ ان سے چشم پوشی کر سکتا ہے۔ یہ انتہائی تشویش کا معاملہ ہے کہ کس طرح کٹّر اور بنیاد پرست مولویوں کی ایک چھوٹی سی اقلیت جاہل لوگوں پر اثر انداز ہو سکتی اور انہیں ملک اور اس کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جوابی کارروائی کے خوف کے بغیر اپنے اشاروں پر نچا سکتی ہے۔
"اگرچہ مختصر مدّت میں برائی کو اس کی جڑ سے ختم کرنے کی انتظامی ناکامی کو فسادات کے پھیلنے کے لئے مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے، ان واقعات کی وجہ سے ہونے والی زبردست تباہی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کس طرح انتہا پسندی ہمارے رویوں اور سماجی برتائو میں داخل ہو گئی ہے۔ ملک (پاکستان) غیر فعال اور ردّ عمل والے جواب کو اپنا کراس صورت حال کو مذید خراب ہونے کی اجازت نہیں دے سکتا ہے۔ سماجی توازن، مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی قیمت پر جب اس نے ایک مخصوص مذہبی ذہنیت کو قبول کیا اور اسے فروغ دیا ۔اور جو نقصان اس نےکر دیا ہے اسے درست کرنے کے لئے کارروائی شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ہم عصر حاضر کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے مقصد سے دوسرے عقائد کے لوگوں کے ساتھ رابطہ کرنے اور تعمیری بات چیت میں ہمیں مشغول ہونے کی ضرورت ہے، اس طرح کے اقدامات کرنا صرف نقصان دہ ثابت ہوں گےا۔"
میں اس کونسل سے درخواست کروں گا کہ وہ اقلیتوں کے انسانی حقوق کے معاملے میں غفلت برتنے والے تمام ملکوں کو اس حقیقت کے وہ قومی، نسلی، مذہبی اور لسانی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے حقوق پر اقوام متحدہ کے اعلانیہ پر کئے گئے دستخط کی یاد دہانی اور اس کا احترام کرنے کی ہدایت دے اور یہ کہ یہ ملک ان دفعات پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ آئیے ان ملکوں کو یاد دلائیں کہ تمام ملکوں کے ذریعہ 1992 میں اس اعلانیہ کو قبول کرنے کی ہم 20ویں سالگرہ منا رہے ہیں اوریہ ملک اس کے دفعات پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ کتنی دیر تک عالمی برادری کو ان ممالک کے ان ہدایات پر عمل پیرا ہونے کا انتظار کرنا چاہئے، جس پر عمل کے لئے ان ملکوں نے دنیا کے سامنے وعدہ کیا تھا۔
میں اس موقع پر غفلت برتنے والے ملکوں کے نمائندوں سے درخواست کروں گا کہ وہ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق میڈم نوی پلّئی کے پہلے چار سیشن کی سفارشات 2008 تک 2011 کی تالیف کے پیش لفظ میں انہوں نے جو کہا ہے، اسے پڑھیں۔ اس کی ابتداء میں، انہوں نے کہا ہے: "2012 میں ہم اس ضروری اعلانیہ کو تمام ملکوں کی طرف سے قبول کرنے کی 20ویں سالگرہ کا جشن منائیں گے ، جو کسی مخصوص طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی کو دیکھتے ہوئے، عالمی سطح پر اقلیتوں کے حقوق کا ہر جگہ احترام، حفاظت اور فروغ دینے کو لازمی تسلیم کرتا ہے۔ بیس سال گزر گئے ہیں اور اعلانیہ میں بتائے گئے حقوق کو ایک حقیقت بنانے کے لئے ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔ بہت سے نسلی، مذہبی اور لسانی اقلیتوں کا امتیازی سلوک، انہیں بے اثر کرنے اور اخراج کا سامنا کرناجاری ہے، اور کچھ ممالک میں تو، تشدد اور تنازعات کے خوفناک اثرات کا سا منا کرنا پڑ رہا ہے۔ فورم ہر جگہ پسماندہ اقلیتوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے بین الاقوامی کوششوں کے صف اول میں ہے۔ "
URL for English article:
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/islam-fully-protects-human-rights/d/6887