New Age Islam
Sat Dec 20 2025, 12:54 AM

Urdu Section ( 2 Apr 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Masum Akhtar of West Bengal and Washiqur Rahman of Bangladesh جماعت اسلامی اور داعش کے انتہا پسندانہ اسلامی نظریات کے دو شکار: مغربی بنگال کے معصوم اختر اور بنگلہ دیش کے واثق الرحمن

 

خصوصی نامہ نگار، نیو ایج اسلام

1 اپریل 2015

ایک مدرسہ کے استاذ اور کولکاتہ کے ایک آزاد خیال کالم نگار معصوم اختر پر اس حملے سے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت ہو گیا ہے کہ انتہا پسند اسلامی عناصر مغربی بنگال میں زور پکڑتے جا رہے ہیں جو کہ ہمیشہ لبرل خیالات اور مذہبی اور ثقافتی رواداری کا مرکز رہا ہے۔ شیعہ فرقے کی ایک بڑی آبادی پر مشتمل ایک مسلم اکثریتی علاقے مٹیا برج میں ایک مدرسے کے سربراہ معصوم اختر پر جان لیوا حملہ کیا گیا تھا اور اس کی وجہ شاید چند روز قبل کلاس میں اپنے نقطہ نظر کے مطابق اسلام پر ان کی گفتگو تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ چند طلباءنے ان کے لیکچر کے مواد کی غلط تشریح کر کے علاقے میں ان کے ‘اسلام مخالف’ خیالات و نظریات کے بارے میں چھوٹی افواہیں پھیلا دی ہوں۔ 26 مارچ کو لوہے کی راڈ لہراتے ہوئے لوگوں کے ایک گروپ نے ان پر حملہ کیا گیا تھا۔ ان کے سر پر زخم آ گئے اور اس کے بعد انہیں ایک اسپتال میں داخل کروایا گیا۔ اسپتال سے نکلنے کے بعد انہوں نے انتہا پسندوں کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی مگر اب تک پولس نے کوئی گرفتاری نہیں کی۔ مقامی لوگوں نے ان کے خلاف مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے اسلام مخالف بیانات دینےکا الزام لگاتے ہوئے بڑے پیمانے پر پٹیشن داخل کیا ہے۔

معصوم اختر کو اسی وقت سے قتل کی دھمکیاں ملنی شروع ہو گئی تھیں جب گزشتہ سال سانحہ کربلا پر ان کا ایک مضمون بنگالی روزنامہ دینک اسٹیٹس میں شائع کیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنے اس مضمون میں واقعہ کربلا پر کسی مذہبی نہیں بلکہ ایک تاریخی نقطہ نظر سے گفتگو کی تھی۔ معصوم اختر کہتے ہیں کہ مضمون کی اشاعت کے بعد سے ہی انہیں فون پر دھمکیاں ملنی شروع ہو گئی تھیں۔ ایک بار پھر انہوں نے گزشتہ سال بردوان میں ہونے والے دھماکوں کے بارے میں ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے لکھا کہ اگر کوئی مدرسہ واقعی اس طرح کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث پایا جاتا ہے تو ان کے خلاف زبر دست کارروائی کی جانی چاہیے۔ اس سے ایک مرتبہ پھر اہل مدارس کے حلقوں میں ان کے خلاف دشمنی پیدا ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس علاقے کے مولوی اور ائمہ ایک طویل عرصے سے ان کے دشمن تھے اس لیے کہ اسلام پر ان کے آزادانہ خیالات کو برداشت کرنا ان کے بس سے باہر تھا۔

ان کے مضمون یا ان کے لیکچر کا اصل مواد دستیاب نہیں ہے لیکن اخبارات میں شائع شدہ معصوم اختر کے بیانات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) یا قرآن مجید کے بارے میں کوئی توہین آمیز بیان نہیں دیا تھا۔ ان کی غلطی صرف یہ تھی کہ انہوں نے ایک ایسا بیان دیا تھا جو ان بنیاد پرست اسلام پسندوں کی اسلام کی تشریحات سے متصادم تھا جو خود کو مکمل طور پر اسلامی افکار و نظریات کے محافظ ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ ایک تاریخی نقطہ نظر سے واقعہ کربلا پر گفتگو کرنا اور یہ کہنا کہ: ‘‘کہ اگر کوئی مدرسہ واقعی اس طرح کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث پایا جاتا ہے تو ان کے خلاف زبر دست کارروائی کی جانی چاہیے’’ توہین کے زمرے میں نہیں آتا اسی لیے معصوم اختر کو ایک اور سلمان رشدی یا تسلیمہ نسرین نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ اگر انہوں نے اردو اخبارات کے معیار کے مطابق بھی کچھ سنجیدہ لکھا ہوتا اور حقیقت میں کوئی گستاخانہ بیان دیا ہوتا تو اس کی خبر ضرور اردو اخبارات میں شائع ہو چکی ہوتی اور اب تک کولکاتہ اور ہگلی سے شائع ہونے والے اردو اخبارات میں ناموس رسالت اور اسلام کے نام نہاد محافظین کے چند مضامین شائع ہو چکے ہوتے۔ اردو اخبارات نے اس کی کوئی خبر شائع نہیں کی، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ معصوم اختر نے جو کچھ بھی بیان دیا وہ  توہین رسالت یا اسلام مخالف بیانات کے دائرے میں نہیں آتا۔ یہ محض مقامی مولویوں اور ائمہ کی اشتعال انگیزی کا نتیجہ ہے کہ مقامی نادان اور جاہل لوگوں کے ایک گروپ نے مدرسہ کے ایک استاذ پر حملہ کر دیا۔

اس طرح کے واقعات مغربی بنگال میں پیدا ہونے والی بدترین صورت حال کا ایک پیش خیمہ ہے۔ اب تک قتل کرنے کی کوشش جیسے سخت اقدامات اسی صورت میں اٹھائے جاتے تھے جب کسی کے اوپر قرآن یا پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کی توہین کا الزام عائد کیا جاتا تھا لیکن اب محض اسلام کے بارے میں اپنی تفہیم یا تاریخی اسلامی واقعات کی بنیاد پر اپنی ذاتی رائے کے لیے ایک استاذ پر اس جان لیوا حملے کا مطلب ہے کہ اسلام کے بارے میں مروجہ تصور اور اسلامی تشریحات یا اسلامی واقعات کے خلاف کوئی بات بھی قابل برداشت نہیں ہے۔ اور اگر اس طرح کے واقعات مغربی بنگال جیسی ایک اعلی تعلیم یافتہ ریاست میں رونما ہو سکتے ہیں تو کم شرح خواندگی والی ایسی ریاستوں میں بھی اس قسم کے واقعات رنما ہو سکتے ہیں جہاں مسلم آبادی بہت زیادہ ہے۔

گزشتہ چند سالوں کے دوران مغربی بنگال میں ایسی مذہبی جماعتوں اور ذیلی فرقوں کو فروغ حاصل ہوا ہے جو اسلامی معمولات پر سختی کے ساتھ پابندی کی وکالت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک سبز عمامہ باندھنے والی جماعت کے پیروکاروں کا یہ ماننا ہے کہ ایک مسلمان کو ایسے گھر میں نہیں کھانا پینا چاہیے جہاں لوگ داڑھی نہیں رکھتے۔ اسی طرح، ایک دوسرے گروپ کا ماننا ہے کہ کسی بے نمازی کی نماز جنازہ میں شرکت نہیں کی جانی چاہئے اور اس شخص کو کسی مسلم قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ کولکاتہ کے ایک سینئر صحافی نے اس صورت حال پر یہ کہا تھا کہ: "اب ہم ریاست میں بڑھتی ہوئی مذہبی عدم رواداری کا خوف محسوس کر رہے ہیں۔"

معصوم اختر کو اپنی زندگی کا خطرہ لاحق ہے اور انہوں نے پولیس کے سامنے اس خوف کا اظہار بھی کیا ہے۔ اور ان کا خوف بے بنیاد بھی نہیں ہے۔ انتہا پسند جماعتوں کو انتظامیہ کی کمزور رسائی کی وجہ سے چھٹکارا حاصل ہوتا جا رہا ہے، جہاں تک مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک مذہبی مسئلہ ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ بن چکا ہے۔ 1971 میں عصمت دری اور بنگلہ دیشی لوگوں کے قتل عام میں ملوث جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی سزا کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال مغربی بنگال میں انتہاپسندی میں اضافے کے پیچھے اصل محرک ہے۔ پاکستانی فوج کے حامیوں پر مجیب کے دور میں شروع ہونے والے ایک کریک ڈاؤن کے درمیان بہت سے رضاکاروں (سیکولر اور نیشنلسٹ بنگلہ دیشیوں کے جماعتی قاتل) نے بھاگ کر ہندوستانی ریاست مغربی بنگال میں پناہ لی تھی۔ ایک بڑی تعداد میں رضاکا بنگال کے سرحدی علاقوں میں اور چند کولکاتہ میں آباد ہو گئے۔

اس وقت حکومت اور سکیورٹی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے مختلف ناموں سے ریاست میں وہ سابق رضاکار کئی غیر سرکاری اور سیاسی و مذہبی تنظیمیں اور مدارس چلا رہے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے ہندوستانی شہریت حاصل کر لی ہے اور وہ مرکزی دھارے کی آبادی میں ضم ہو چکے ہیں، لیکن ان کی وفاداریاں بنگلا دیش کے پاکستان حامی اسلام پسندوں کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے اپنے انتہا پسند نظریات کو اب تک ترک نہیں کیا ہے۔ ان رضاکاروں کے نظریات و معتقدات کی حامل وہ تنظیمیں پر فریب ناموں کے ساتھ چل رہی ہیں اور جب کبھی انہیں ضرورت پیش آتی ہے وہ تنظیمیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جاتی ہیں اور حکومت اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو یہ تاثر دیتی ہیں کہ تمام مکاتب فکر کے مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں لہٰذا، کسی خاص مذہبی نظریہ نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے خیالات و نظریات ایک ہی جیسے ہیں۔ لہٰذا، حکومت ایسی تنظیموں اور افراد کے خلاف کوئی سخت قدم اٹھانے سے باز آ جاتی ہے۔ بنگال میں بسنے والے کچھ صحافی اور علماء کرام نے مسلسل اپنی تحریروں کے ذریعے ان انتہا پسند اور عدم روادار نظریات کی تشہیر کر کے مذہبی عدم رواداری اور مذہبی بنیاد پرستی کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

دو دن قبل ایک بلاگر کو مسلمانوں کی عدم رواداری اور انتہا پسندی پر تنقید کرنے کے جرم میں ایک مدرسے کے دو طالب علموں نے ہلاک کر دیا۔   واثیق الرحمٰن نے توہین رسالت کا ارتکاب نہیں کیا ہے۔ در اصل انہوں نے نہ تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نہ قرآن اور نہ ہی خدا کی توہین میں کچھ لکھاتھا۔ انہوں نے محض شام میں داعش کی جانب سے خواتین کے جنسی استحصال اور جنسی جہاد میں شرکت کرنے والی خواتین کے خلاف ایک طنز و مزاح لکھا تھا۔ لیکن یہ بھی مدرسے کے ان دو طالب علموں کے لیے نا قابل برداشت تھا، اس لیے کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں مسلم میڈیا نے داعش کو حقیقی اسلامی خلافت کے طور پر پیش کیا ہے۔ اپنی تحریر میں   واثیق الرحمٰن نے کسی ملحد کے سوالات کے جوابات فراہم کرتے ہوئے تخلص میں کسی خود پسند مومن کا نام اختیار کر لیا تھا، ان کی تحریر حسب ذیل ہے:-

"اپنی مرضی سے ان کے ساتھ جنسی تعلقات بنانے کی خوگر ان محبوس خواتین کو دیکھیں جو مسلم جنگجوؤں کی بہادری سے متاثر ہیں۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ انہیں اس میں مزہ بھی آتا ہے؟   واثیق الرحمٰن بلاگر اویجت کے قتل سے انتہائی کبیدہ خاطر تھا اسی لیے اس نے اپنے بلاگ کے بینر پر لکھ دیا تھا کہ 'میں اویجت ہوں'۔

آزاد سوچ یا دیگر مکاتب فکر کے تئیں یہ عدم رواداری اور متعصب رویہ مغربی بنگال کے ایک لبرل اور وسیع النظر معاشرے کو مذہبی عدم رواداری اور انتہا پسندی کے ایسے قعر عمیق میں ڈھکیل رہا ہے جہاں اختلاف میں اٹھنے والی ہر آواز کا گلا تحفظ ناموس اسلام کے نام پر گھونٹ دیا جائے گا۔ ہندوستان میں اسلامی شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے مہلک کینسر پر ریاستی اور مرکزی حکومت کے اداروں کی بے حسی کی قیمت پوری قوم کو چکانی ہوگی۔

URL for English article: https://newageislam.com/islam-terrorism-jihad/masum-akhtar-west-bengal-washiqur/d/102226

URL for this article:  https://newageislam.com/urdu-section/masum-akhtar-west-bengal-washiqur/d/102241


Loading..

Loading..