ارشاد احمد حقانی
23جولائی، 2009
معاشردی نیوز کی ایک اطلاع کے مطابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اب بہت جارحانہ مو ڈ میں ہیں۔ وہ اچھی حکمرانی کے حوالے سے انتہا ئی سنجیدہ بتائے جاتے ہیں ۔ انہوں نے دفاقی کابینہ میں رد وبدل کا فیصلہ بھی کرلیا ہے اور ایسا ایوان صدر کی خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ میرٹ کے مطابق ہوگا۔ وزیر اعظم شرم الشیخ سے ایک فاتح کےطور پر واپس آنے کے بعد بظاہر بہت بااعتماد نظر آرہے ہیں لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تمام تر اعتماد کے باوجود تاریخ بنانا بچوں کا کھیل نہیں ۔ انہوں نے وزیر اعظم ہاؤس میں ون ڈس پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اچھا فیصلہ ہے لیکن اس طرح تو تاریخ نہیں بنتی ۔وزیر اعظم گیلانی نے واقعی ایک حیران کن دعویٰ کردیا ہے تاریخ تو چرچل ،ڈیگال اور اوبامہ جیسے لوگ بناتے ہیں۔ جناب گیلانی کو غالباً احساس نہیں کہ پاکستان کی تاریخ بنانے میں کیا مشکلات حائل ہیں ۔ یہاں فیوڈل کلاس کا غلبہ ہے جس سے وہ خود بھی تعلق رکھتے ہیں اور حال ہی میں انہوں نے اپنے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے گندم کی قیمت 950روپے فی من کردی ہےیقیناً اس سے ان کی کلاس کو تو کچھ فائدہ ہوگا لیکن پاکستان کے کروڑوں عوام اس سے پس گئے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کبھی جمہوریت آئی ہی نہیں ۔یہاں گیلانی صاحب جیسے پیروں اور وزیر وں کا تسلط رہا ہے جنہوں نے عوام کو محض بھیڑ بکریاں سمجھ رکھا ہے ۔ اقبال کہتا ہے:
دہقا ہے کسی قبر کا اگلاہوا مردہ
بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیر زمین ہے
جاں بھی گرِوِ غیر بدن بھی گرِوِغیر
افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے نہ مکیں ہے
یورپ کی غلامی پہ رضا مندہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے
جیسا کہ عرض کیا گیا ایوان وزیر اعظم میں ایک ڈش پیش کرنے کا فیصلہ تو تاریخ بنانے کےلئے کافی نہیں ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری حکومت بشمول بیورو کریسی اللے تللے ختم کرے۔ ہمارے حکمرانوں کی حالت تو یہ ہے کہ جیسے انگریزی میں کہتے ہیں :
Romewas buming and Nero was fiddlingترجمہ : روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا
اگر ہمارے لچھن یہی رہے تو پھر ہمیں خدانخواستہ تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔ دنیا کی جن قوموں نے دنیا کی تاریخ بدلی ہے ان کے انداز اور لچھن ہمارےجیسے نہیں ہوتے۔ وہاں حکمران خود اپنے گھر کے برتن مانجتے ہیں اپنے تمام کام خود انجام دیتے ہیں۔مجھے یاد ہے جب ٹونی بلیئر نے 10۔ڈاؤننگ سٹریٹ سے 11۔ڈاؤننگ سٹریٹ جانے کا فیصلہ کیا تو ان کا اپنا چھوٹا بیٹا جس کا نام غالباً لیوتھا ایک بڑا صندوق خود گھسیٹ کراپنے نئے گھر میں لے جارہا تھا۔ یورپ کے حکمرانوں او رہمارے حکمرانوں میں وہی فرق ہے جسے فارسی میں یوں کہا جاتا ہے : ‘‘چہ نسبت خاک رابا عالم پاک’’ ہمیں نہیں معلوم کہ گیلانی صاحب تاریخ بدلنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کس خیالی دنیا میں رہتےہیں ؟ انہیں معلوم ہوناچاہئے کہ جب تک ہم خود اپنی حالت نہیں بدلتے کوئی چھوٹی سے چھوٹی تبدیلی بھی نہیں آسکتی ۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے‘‘لنس للا نسان الا ماسعی ’’ لیکن یہاں اس قرآنی حقیقت کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔حالی کی زبان میں ہماری حالت تو اس وقت یہ ہے:
پر اس قوم غافل کی غفلت وہی ہے
تنزل پہ اپنے قناعت وہی ہے
ملے خاک میں یہ رعونت وہی ہے
ہوئی صبح اور خواب راحت وہی ہے
نہ افسوس انہیں اپنی ذلت پہ ہے کچھ
نہ رشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ
بہائم کی اور ان کی حالت ہے یکساں
کہ جس حال میں اسی میں ہیں شاداں
نہ ذلت سے نفرت نہ عزت کا ارماں
نہ دوزح سے ترساں نہ جنت کے خواہاں
لیا عقل ودیں سے نہ کچھ کام ا نہوں نے
کیا دین برحق کو بدنام انہو ں نے
وہ دیں جس نے اعداواخواں بنایا
وحوش اور بہائم کو انساں بنایا
درندوں کو غم خوار دوراں بنایا
گڈریوں کو عالم کا سلطان بنایا
وہ خطہ جو تھا ایک ڈھوروں کا گلّہ
گراں کر دیا اس کا عالم سے پلّہ
عرب جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا
جہاں سے الگ اک جزیرہ حما تھا
زمانے سے پیوند جس کا جدا تھا
نہ کشور ستاں تھا نہ کشور گشا تھا
تمدُّن کا اس پر پڑا تھا نہ سایہ
ترقی کا تھا واں قدم تک نہ آیا
نہ آب وہوا ایسی تھی روح پرور
کہ قابل ہی پیدا ہوں خود جس سے جوہر
نہ کچھ ایسے سامان تھے داں میسر
کنول جس سے کھل جائیں دل کے سراسر
نہ سبز ہ تھا صحرا میں پیدا نہ پانی
فقط آب باراں پہ تھی زندگانی
زمیں سنگلاخ اور ہوا آتش افشاں
لَوؤں کی لَپٹ ،باد صرصر کے طوفاں
پہاڑ اور ٹیلے سراب اور بیاباں
کھجوروں کے جھنڈ اور خار مُغیلا ں
نہ کھیتوں میں غلّہ ،نہ جنگل میں کھیتی
عرب اور کل کائنات اس کی یہ تھی
نہ واں مصر کی روشنی جلوہ گر تھی
نہ یونان کے علم وفن کی خبر تھی
وہی اپنی فطرت پہ طبع بشر تھی
خدا کی زمیں بن جُنی سربسر تھی
پہاڑ اور صحرا میں ڈیرا تھا سب کا
تلے آسماں کے بسیرا تھا سب کا
کہیں آگ بجتی تھی واں بے محابا
کہیں تھا کواکب پرستی کا پرچا
بہت سے تھے تثلیث پر دل سے شیدا
بتوں کا عمل سوبسو جابجا تھا
کرشموں کا راہب کے تھا صید کوئی
طلسموں میں کاہن کے تھا قید کوئی
ہم جناب گیلانی سے گزارش کریں گے کہ وہ اتنے بلند بانگ دعوے کر کے ازراہ کرم اپنی قوم کو بیوقوف بنانے کی کوشش نہ کریں ۔ ایسا کرنا گناہ کبیرہ ہے قرآن کہتا ہے لم تقو لون مالا تفعلون قرآن نےاسے منافقت قرار دیا ہے اور یاد رہے کہ منافق کو جہنم کے سب سے نچلے درجے میں رکھا جاتا ہے ۔ لعیاد ا باللہ ۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/ridiculous-claim-pakistan-prime-minister/d/1565