سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
25 اپریل 2025
کشمیریوں کو ہمیشہ اپنے کلچر پر فخر رہا ہے۔ وہ اپنے اس صدیوں پرانے کلچر کو کشمیریت کہتے ہیں۔ زندہ دلی ، مہمان نوازی ، رواداری اور دردمندی ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی ہے۔یہ لوگ محنتی ہوتے ہیں اور خطروں سےکھیلنا ان کے روز مرہ کا معمول یے۔ پہلگام المیہ نے ان کے اس کلچر اس کشمیریت کو مزید نمایاں کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا جبکہ قومی میڈیا نے کشمیریوں کو ہمیشہ صرف پتھر بازی اور دہشت گردی سے جوڑ کر دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کی۔پہلگام میں سیاحوں پر دہشت گردانہ حملے کے دوران بھی قومی میڈیا نے صرف اس بات پر اپنا سارا فوکس مرکوز رکھا کہ دہشت گردوں سیاحوں کانام اورمذہب پوچھ کر گولی ماری جبکہ یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ دہشت گرد اکثر مسلمانوں سے ہمدردی حاصل کرنے کے لئے اس طرح کے ہتھکنڈے اپناتے ہیں اور دو مذہبی فرقوں کے درمیان خلیج کو اور زیادہ وسیع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہندوستان میں گزشتہ سال چیتن سنگھ نام کے ایک ریلوے پولیس کے جوان نے ٹرین میں نام پوچھ کر کئی لوگوں کو گولی ماردی تھی۔ اس طرح کے واقعات نہ ہندوؤں کی مذہبی روایات کا حصہ ہیں اور نہ مسلمانوں کی لیکن میڈیا نے صرف اسی ایک۔پہلو کو زیادہ نمایا کرکے پیش کرکے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا۔ اس کے برعکس کشمیری مسلمانوں نے دہشت ردانہ حملوں کے متاثرین کو ہر ممکن مدد پہنچائی اور اپنی زندہ دلی ، مہمان نوازی اور درد مندی کا بھرپور ثبوت پیش کیا۔سانحے کے بعد اورسانحے کے دوران مقامی کشمیریوں کی بہادری اور جاں بازی کے قصے اب سوشل میڈیا کے ذرہعے عوام۔کے سامنے آرہے ہیں اور قومی میڈیا کے فرقہ وارانہ پروپیگنڈے کو طشت از بام کررہے ہیں۔ جس شخص نے سب سے زیادہ بہادری کا مظاہرہ کیا وہ مقامی گائیڈ اور گھوڑا بان 32 سالہ سید عادل حسین شاہ تھاجس نے سیاحوں کوبچانے کے لئے اپنی جان کی بازی لگادی اورایک دہشت گرد سے اس کی رائفل چھیننے کی کوشش کی۔ نتیجے میں دہش گرد نے اسے گولی ماردی اور وہ وہیں شہید ہوگیا۔ وہ اپنے کنبے کا واحد کمانے والا شخص تھا۔ اس نے اپنے پیچھے ضعیف والدین ، بیوی اور بچے چھوڑے ہیں جن کا اب اللہ ہی والی ہے۔ اس نے سیاحوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہوۓ یہ نہیں سوچا کہ سیاح ہندو ہیں اور وہ ان کے لئے اپنی جان اور اپنے کنبے کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
پہلگام سانحے کے بعد اسی طرح کئی کشمیریوں نے زخمی سیاحوں کی مدد کی اور اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کی۔ انہی میں ایک شخص کا نام نزاکت علی ہے۔ نزاکت علی کپڑے کے تاجر ہیں جنہوں نے قتل عام کی خبر سن کر جاۓ واقعہ سے چھتس گڑھ کے گیارہ ہندو سیاحوں کو بچایا جن میں کچھ بچے بھی شامل تھے۔ وہ لوگ نزاکت کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ان سب کو محفوظ مقام تک پہنچایا۔
اسی طرح شال فروش سجاد احمد بھٹ نے ایک زخمی سیاح کو پیٹھ پر لاد کر محفوظ مقام تک پہنچایا۔ اس کے علاوہ کئی لوگوں کو اسپتال پہنچایا۔سجاد احمد نے اے این آئ کو بتایا کہ وہ سیاحوں کو اپنا مہمان سمجھتے ہیں۔ان کی آمد پر ان کی روزی روٹی کا انحصار ہے۔ ان کی آمد سے ان کے گھر میں چولہا جلتا ہے۔
اسی طرح پہلگام۔اے ٹی وی اسٹینڈ کے صدر ارشاد احمد نیوی افیسر ونئے نروال کی لاش کو پیٹھ پر لاد کر لاۓ تھے۔
ظاہر ہے پہلگام میں دہشت گردانہ حملہ کرنے والے اور مذہب پوچھ کر معصوم سیاحوں کا قتل کرنے والے ان کشمیریوں کے ہمدرد اور خیر خواہ۔نہیں ہوسکتے۔ ان لوگوں نے نہ صرف انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی بلکہ ان کے ذریعہء معاش کو بھی نقصان پہنچایا کیونکہ اس المئے کےبعد تمام سیاح وہاں سے چلے گئے اور اب وہاں موت کا سناٹا ہے۔ وہاں پونی رائیڈر ، کارٹ ڈرائیور اور ہوٹل۔کے مالک اور دیگر اسٹاف سیاحت کا موسم ۔ شروع ہونے سے بہت خوش تھے۔ ہوٹل تمام بھرے ہوئے تھے اور سبھوں کا کاروبار اچھا چل رہا تھا۔ لیکن دہشت گردی کے ایک واقعے نے راتوں رات ان کی دنیا اجاڑدی۔ اس واقعے سے صرف پہلگام کی معیشت نہیں بگڑی بلکہ پورے کشمیر کی معیشت کو نقصان پہنچا۔ صرف چوبیس گھنٹے کے اندرسری نگر کے ہوٹلوں کی دس ہزاربکنگ کینسل ہوگئی اور سیاحوں کا رخ کشمیر سے ہماچل پردیش کی طرف مڑ گیا۔ اس طرح دہشت گردوں نے اس قتل عام۔کو انجام دے کر کشمیریوں کو دو طرح سے نقصان پہنچایا۔اول ، ۔انہیں مذہب کے نام پر بانٹنے کی کوشش کی اوردوم ان کی روزی روٹی چھیننے کی بھی کوشش کی۔ اس لئے ایسا لگتا ہے کہ اس قتل عام کے پیچھے ایک گہری سازش ہے جس پر سے پردہ اٹھنا ابھی باقی ہے۔
-------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/pahalgam-tragedy-kashmiriyat/d/135303
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism