New Age Islam
Thu Dec 18 2025, 11:00 PM

Urdu Section ( 3 Sept 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

What Is Wrong With 126 Moderate Ulema's 'Open Letter To 'Khalifa' Abu Bakr Al-Baghdadi خلیفہ ابو بکر البغدادی کو کھلا خط لکھنے والے 120 اعتدال پسند علماء میں کیا نقص ہے، اور یہ کیوں مؤثر نہیں ہو گا؟

 

 

 

سلطان شاہین، ایڈیٹر، نیو ایج اسلام

1 ستمبر 2015

 پوری دنیا کے اکثر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے دنیا بھر کے 120 علماء نے ڈاکٹر ابراہیم عواد البدری عرف ابو بکر البغدادی اور ‘‘اسلامی ریاست’’ کے جنگجوؤں اور پیروکاروں کو ایک کھلا خط بھیجا ہے۔

14 ہزار سے زائد الفاظ پر مشتمل یہ ایک بیش قیمتی دستاویز ہے۔ اس میں اس بات کی توضیح کی گئی ہے کہ خلیفہ البغدادی کے احکام میں غلط باتیں اور باطل عناصر کیا کیا ہیں۔ لیکن، سب زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موجود دور میں اعتدال پسند اسلام میں کیا کیا نقص ہے؛ یہ تردیدی تحریر کیوں مؤثر نہیں ہو گی، اور اس جیسے دیگر تردیدی بیانات بھی کیوں غیر مؤثر ہوں گے؛ اور کیوں ہمارے بچے ISIS اور دیگر دہشت گردی کے مراکز کی طرف اپنا رخ کرتے ہی رہیں گے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اعتدال پسند علماء کے اس فتوی میں تو در حقیقت اعتدال پسند اسلام کو پیش کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔

کوئی بھی 16 سالہ نوجوان 14 ہزار الفاظ پر مشتمل اس دستاویز کو مکمل نہیں پڑھے گا۔ بلکہ ان کے ذہنوں پر حسب ذیل اقتباسات کا اثر ہوگا جنہیں پرتشدد اسلامی نظریات کے حمایتی غلط طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں:

‘‘...........قرآن کے تمام احکام حق اور تمام مستند احادیث منزل من السماء ہیں۔’’

یہ اعتدال پسند علماء کی طرف سے اس بات کی تصدیق ہے کہ دہشت گرد نظریہ ساز اپنے شاگردوں کو جن باتوں کی تعلیم دے رہے ہیں وہ درست ہے۔ ان کی دلیل یہی ہے۔ قرآن و حدیث کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے؛ وہ دونوں الہامی ہیں۔ قرآن مجید کی ایک آیت اسی قدر اچھی ہے جس قدر دوسری آیت اچھی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ایک حدیث اسی قدر اچھی ہے جس قدر دوسری حدیث اچھی ہے۔ یہ تمام ناقابل تغیر، عالمگیر اور ہر زمانے کے لئے ایک ابدی ہدایت کا مصدر و منبع ہیں۔ فتوی میں صرف ایک مقام پر یہ کہا گیا ہے کہ "قرآن کی کسی مخصوص آیت کو اس ایک واقعہ کے تناظر میں پیش کرنا جائز نہیں ہے جو اس آیت کے نزول کے 14 سو سالوں کے بعد پیش آیا ہے"۔ لیکن یہ دہشت گردی نظریہ ساز اس بات پر زور نہیں دیں گے۔ بلکہ وہ ان باتوں پر زور دیں گے جن پر ان لوگوں سمیت جو خود کو اعتدال پسند سمجھتے ہیں تمام مکاتب فکر کے علماء کے درمیان اتفاق رائے ہے، اور وہ یہ ہے کہ قرآن اور حدیث دونوں الہامی ہیں اور یہ تمام"سچ" کی نمائندگی کرتے ہیں(اگرچہ انہیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے سینکڑوں سال بعد جمع گیا گیا تھا)۔ اس سے ہمارے 16/20 سالہ بچوں کا اعتماد اس امر پر بحال ہو گا کہ ہم دہشت گردی کے دستورالعمل میں جو بھی سیکھ رہے ہیں وہ تمام باتیں درست ہیں اور انہیں اعتدال پسند سمیت تمام علماء کی ایک آفاقی مقبولیت حاصل ہے۔

اسی طرح کھلے خط کے باب 13 - جبر اور مجبوری کے باب میں اعتدال پسند علماء کا کہنا ہے کہ: "یہ بات سب کو معلوم ہے کہ آیت: (لا اکراہ فی الدین) مفہوم 'دین میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے' فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی، لہذا، کوئی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ یہ آیت منسوخ ہو چکی ہے"۔ اس کے بعد اس فتوی میں جبر و اکراہ کے استعمال کے لئے بغدادی کی تنقید کی گئی ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اعتدال پسند علماء نے بھی اپنے فتوی میں بغدادی کی بنیادی دلیل کو تسلیم کر لیا ہے، لہٰذا، فتح مکہ سے پہلے نازل ہونے والی پرامن مکی آیات منسوخ ہو چکی ہیں، یا کم از کم انہیں منسوخ کر دیا گیا ہوگا اور اب جنگ سے متعلق عسکریت پسندی پر مبنی آیات کی ترویج و اشاعت کی جانی چاہیے۔

بہر حال یہ بات غلط ہے کہ "آیت: (لا اکراہ فی الدین) مفہوم: 'دین میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے' فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی تھی"۔ در اصل اس کا نزول مدینہ میں اس وقت ہوا جب کچھ مسلمانوں نے مدینہ سے ہجرت کرنے کے بعد یہودیوں کی تحویل سے اپنے بچوں کو واپس لینے اور انہیں اسلام میں داخل کرنے کا ارادہ کیا۔ لہٰذا، ان اعتدال پسند علماء اور ان لوگوں کے مطابق جو اس آیت کی اصل شان نزول سے واقف ہیں، یہ آیت بھی منسوخ ہے۔ کیا اب بھی اعتدال پسند اسلام کے لیے کوئی بنیاد باقی رہ جاتی ہے؟

قرآن کی اس آیت کا شان نزول تفسیر ابن کثیر کی رو سے: "روایت کی جاتی ہے کہ اس آیت کے نزول کی وجہ انصار تھے، اگر چہ معنیٰ کے اعتبار سے اس کے مضمرات عام ہیں، ابن جریر نے روایت کی کہ ابن عباس نے کہا کہ اسلام سے پہلے ایک انصار عورت تھی جس کا بچہ زندہ نہیں بچتا تھا تو اس نے یہ قسم کھائی کہ اگر اس نے ایسا بچہ جنا جو زندہ بچ گیا تو وہ اس کی پرورش ایک یہودی کے طور پر کرے گی۔ جب ایک یہودی قبیلہ بنو نضیر کو مدینہ سے نکال لیا گیا تو انصار کے کچھ بچے ان کے درمیان پرورش پا رہے تھے، تو انصار نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کو ان کے درمیان نہیں چھوڑیں گے۔ تو اس پر اللہ نے اس آیت کو نازل کیا: لا إكراه فى الدين قد تبين الرشد من الغي

''(دین میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بے شک حق باطل سے ممتاز ہو گیا۔)

پوائنٹ 16۔ حدود (سزا) کے باب میں، کھلے خط کی شکل میں اعتدال پسند علماء کے فتوی میں ایک عام اصول یہ قائم کیا گیا ہے کہ: "حدود کا بیان قرآن اور حدیث میں متعین اور مبین ہیں اور بلا شبہ وہ اسلامی قانون میں واجب العمل ہیں" بغدادی کی بنیادی دلیل کو قبول کرنے کے بعد اس میں نام نہاد اسلامی ریاست میں اس کے نفاذ پر تنقید کی گئی ہے۔ جو کہ اس طرح ہے: "تاہم، ان کا نفاذ وضاحت، انتباہ، نصیحت اور خاطر خواہ دلیل قائم کیے بغیر ایک ظالمانہ انداز میں نہیں کیا جا سکتا۔" لیکن اگر آپ نے ایک مرتبہ 7ویں صدی کے اعرابی قبائلی عرب ثقافت پر مبنی حدود (سزا) کی بنیادی دلیل کو "اسلامی قانون میں بلا شبہ واجب العمل قانون" کی حیثیت سے قبول کر لیا تو اعتدال پسندی اور انتہاپسندی کے درمیان کیا فرق باقی رہ گیا۔

پوائنٹ 20 میں ایسا لگتا ہے کہ اعتدال پسند علماء نے بتوں کو توڑنے اور انہیں تباہ کرنے کا جواز پیش کیا ہے۔ کھلے خط سے مندرجہ ذیل اقتباس کا مطالعہ کریں:

"آپ کے سابق رہنما، ابو عمر البغدادی نے کہا کہ: 'ہماری رائے میں شرک کی تمام علامتوں کو تباہ کرنا اور ان تمام ذرائع کو ختم کرنا ہماری ذمہ داری ہے جو شرک کی طرف لے جاتے ہیں، اور اس کی بنیاد صحیح مسلم میں امام مسلم کی وہ حدیث ہے جسے انہوں نے پر ابوالہیاج الاسدی کی سند سے روایت کی ہے کہ علی بن ابی طالب نے فرمایا کہ: ‘‘کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتا دوں جس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا ہے: کسی بھی بت کو مٹائے بغیر اور کسی بھی قبر کو سطح زمین سے ملائے بغیر نہ چھوڑا جائے ’’۔ اگر ان کی بات سچ ہو تب بھی اس کا نفاذ انبیاء یا صحابہ کی قبروں پر نہیں ہوتا اس لیے کہ صحابہ کرام کے درمیان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کے دو صحابہ ابو بکر اور عمر (رضی اللہ عنہما) کو اس امارت میں دفن کرنے پر اتفاق رائے تھی جو مسجد نبوی سے ملحق ہے۔"

صراحتاً اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اعتدال پسند علماء صرف "انبیاء یا صحابہ کی قبروں" کو مسمار کرنے کی مخالفت کرتے ہیں اور وہ شرک (بت پرستی) کی تمام علامتوں کو ختم کرنے کی مجوزہ ذمہ داری کے خلاف نہیں ہیں۔ یہ معاصر دنیا میں بین المذاہب تعلقات کو برقرار رکھنے کی کوئی بہت اچھی علامت نہیں ہے جہاں تمام مہذب ممالک اپنے مذہب پر عمل کرنے کے ایک دوسرے کے حق کا احترام کرتے ہیں۔

کھلے خط کے پوائنٹ 22 میں ‘‘خلافت’’ کے عنوان کے تحت ، اعتدال پسند علماء نے ایک بار پھر بغدادی گروہ کی بنیادی دلیل سے اس انداز میں اتفاق کیا ہے: "علماء کرام کے درمیان اس بات پر اتفاق ہے کہ خلافت کا قیام امت کی ایک ذمہ داری ہے۔ تاہم، 1924 عیسوی کے بعد سے امت مسلمہ میں خلافت کا فقدان ہے"۔ اس کے بعد مسلمانوں کی اتفاق رائے کے فقدان کی وجہ سے اس میں البغدادی کی خلافت کی تنقید کی گئی ہے اور کافی سخت لب و لہجے میں اس پر بغاوت، فتنہ، وغیرہ کا الزام لگایا گیا ہے۔ لیکن اس میں بھی مسئلہ وہی ہے۔ اعتدال پسند علماء نے خلافت قائم کرنے کی امت کی نام نہاد ذمہ داری کی بنیادی دلیل پر بغدادی کے ساتھ اتفاق کیا ہے۔ یہ عصر حاضر میں ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ اس سے یہ امر واضح ہے کہ بغدادی گروپ اور اعتدال پسند علماء دونوں یکساں طور پر پرانے ہیں جو بظاہر اب بھی 7ویں صدی عیسوی میں زندگی گزار رہے ہیں۔

لیکن ایک معاملے میں البغدادی ان اعتدال پسند علماء سے بھی زیادہ انسانیت پسند اور مہذب ثابت ہوا ہے۔ بغدادی کے لئے کھلے خط میں پوائنٹ 23 کے تحت قومی وابستگی کے باب میں کہا گیا ہے کہ : "آپ نے اپنی ایک تقریر میں کہاہے کہ: شام شامیوں کے لئے نہیں ہے اور عراق عراقیوں کے لئے نہیں ہے54'۔ اور اسی تقریر میں آپ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس بات کی تاکید کی ہے کہ وہ عراق اور مشرقی بحیرہ روم کے علاقوں میں 'اسلامی ریاست' کے زیر تسلط علاقوں میں ہجرت کریں۔ ایسا کر کے آپ ان ممالک کے حقوق اور وسائل پر قبضہ کر کے انہیں ان لوگوں کے درمیان تقسیم کر دیں گے جن کا اس زمین سے کوئی تعلق نہیں ہے، اگر چہ وہ ایک ہی مذہب کے ہیں۔ اسرائیل نے بھی بیرون ملک یہودیوں کو فلسطین ہجرت کرنے کی دعوت دیکر ایسا ہی کیا تھا، انہوں نے فلسطینیوں کو بے دخل کر دیا اور ان کے آبائی حقوق اور زمین کو غصب کر لیا۔ لہٰذا، اس میں انصاف کہاں ہے؟"

کوئی بات صرف اس لیے غلط اور باطل نہیں ہو جاتی کیوں کہ اسرائیل ایسا کر رہا ہے۔ درحقیقت اسرائیل بہت سے اچھے کام بھی کر رہا ہے اور مسلمانوں کا بھی اس پر عمل کرنا بہتر ہو گا۔ اس معاملے میں صرف اسرائیل ہی تنہا نہیں ہے بلکہ لیکن پوری مہذب دنیا اپنے ممالک کے "حقوق اور وسائل" میں دوسروں کو شامل کرتی ہے اور ان کا اشتراک ان لوگوں کے ساتھ کرتی ہے "جو ان کی زمین پر اجنبی ہیں"، جنہوں نے ان ملکوں میں سیاسی پناہ گزین یا مہاجر کی کی حیثیت سے ہجرت کی ہے۔ یہاں تک کہ کچھ ممالک میں طالب علموں کو معیشت میں کوئی تعاون پیش کیے بغیر ہی کم از کم دو سال کے اندر ہی مستقل رہائش کا اجازت نامہ حاصل ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب نامی "خالص اسلام" والی زمین سمیت وحشیانہ عرب ممالک میں اگر آپ نصف صدی تک بھی ملک کی خدمت کر دیں تب بھی آپ ان سے اس بات کی توقع نہیں کر سکتے کہ آپ کو ان سے گرین کارڈ یا مستقل رہائشی حیثیت حاصل ہو جائے گی، اور اگر ایک مرتبہ ان کی ضرورت ختم ہو گئی تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ آپ کو اپنے ملک سے باہر کر دیں گے۔ لہٰذا اگر بغدادی کسی بھی قیمت پر ان لوگوں کو رہائشی حیثیت دے رہا ہے، جنہیں وہ اپنے لئے کام کرنے یا لڑنے کے لئے بلا رہا ہے تو وہ مہذب بن رہا ہے اور خود کو ایک عرب حکمران سمجھ رہا ہے، اور کسی بھی عرب حکمران کو ، خواہ وہ اسلامی ہو، سیکولر ہو، سیاسی ہو یا قومی ہو اس مہذب رویے کے لئے نہیں جانا جاتا ہے۔ اور یہاں اعتدال پسند علماء اس کے لئے اس کی تنقید کر رہے ہیں۔ وہ بظاہر اس معاملے میں عرب بربریت کی حمایت کر رہے ہیں۔

یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ یہ کھلا خط مکمل طور پر بیکار یا مکمل طور پر بر عکس نتیجہ برآمد کرنے والا ہے۔ اگر چہ اس میں کئی معاملوں میں ان کے مبادیات سے اتفاق کیا گیا ہے ، لیکن اس میں کم از کم، اسلامی اصولوں کے ناقص نفاذ کے لئے سخت انداز میں بغدادی اور اس کے گروہ پر تنقید کی گئی ہے۔ لیکن اس کھلے خط سے اس بات کی توقع کرنا بیکار ہے کہ یہ نام نہاد اسلامی ریاست کے لئے حمایت کو روکنے میں کامیاب ہو گا۔

تقریبا اسلامی تاریخ کے آغاز سے ہی انتہا پسندی اسلام میں موجود رہی ہے۔ مسلمانوں نے حدیث اور شریعت کی تخلیق سے پہلے ہی جنہیں وہ مقدس مانتے ہیں، آپس میں سخت جنگیں لڑی ہیں۔ مسلمانوں کو اب تک قرآن مجید میں موجود عسکریت پسندی پر مبنی آیات کا تریاق نہیں مل سکا ہے، جو کہ انٹرنیٹ کی مدد سے اب ہر کسی کو دستیاب ہے۔ قرآن کی تمام آیات کو ابدی قدر اور اہمیت و افادیت کا حامل قرار دینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ حدیث اور شریعت کو الہامی قرار دینا آج کے سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے۔

مسلمانوں کو تشدد اور تفوق پرستی کی طرف لے جانے والی شریعت کو ترک کرنا ہوگا اور تمام معاملات میں اسلامی تعلیمات کے مطابق امن اور تکثیریت پر مبنی ایک ایسی نئی شریعت بنانی ہوگی جو معاصر اور مستقبل کے معاشروں کے لئے موزوں ہو۔

 

مفسر قرآن محمد یونس کے وہ آٹھ تبصرے جن سے مذکورہ بالا نکات کی تائید ہوتی ہے

 1۔       حدیث کے الہامی ہونے کا تصور محض افسانوی ہے

حدیث کے الہامی ہونے کا تصور محض افسانوی ہے جیسا کہ ذیل میں میرے محولہ مضمون میں نتیجہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے:

"مندرجہ بالا تشریحات یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ احادیث نہ تو منزل من السماء ہیں، نہ اس کے مساوی ہیں، نہ اس کا ضمیمہ ہیں اور نہ ہی دور دور تک اس کے ساتھ قرآن کی کوئی مطابقت پائی جاتی ہے جیسا کہ اس مضمون میں دعویٰ کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس سلسلے میں مزید کوئی بھی تفصیلات قارئین پر ایک بار گراں ہوگی۔ بے شک ہم اس بات کو جاننے کے لیے حدیث کے محتاج ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز، روزے اور حج جیسے اسلامی رسومات کی ادائیگی کس طرح کی لیکن ہم اسے منزل من السماء یا بالواسطہ وحی نہیں مان سکتے اس لیے کہ ایسا کر کے ہم ایک خاص زمانے کے ساتھ مخصوص اور تاریخی واقعات کو وحی کی سطح سے ملا کر ایک عظیم گناہ کے مرتکب ہوں گے جو کہ ایک کھلا شرک ہے۔

حدیث قرآن کے مساوی کوئی اسلامی صحیفہ نہیں ہے

http://www.newageislam.com/islamic-ideology/hadith-is-نمبرt-a-divine-scripture-of-islam-–-a-la-qur’an/d/100996

لہٰذا، جو یہ دعوی کرتا ہے کہ حدیث قرآن ہی کےمتوازی وحی الٰہی ہے وہ اللہ کی بارگاہ میں مشرک ہے- واللہ اعلم بالصواب---

2.         حدود کا واجب ہونا باطل ہے

یہ کہنا کہ '' حدود قرآن اور حدیث میں متعین اور واجب العمل ہیں "دو بنیادوں پر باطل ہے:

1۔ قرآن میں حدود معافی کی شق کے ساتھ صرف ایک عبرت انگیز سزا کے طور پر مشروع ہیں جس سے سزا میں لچک کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے معمولی جرائم کے لئے قید کی سزا مشروع کی اور صرف بڑے جرائم کے لئے حدود کو محفوظ رکھا۔

2۔ حدود حدود کی عبرت انگیز نوعیت لاقانونیت کے ایک ماحول کی عکاسی کرتی ہے جو کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نمایاں ہےجو کہ حسب ذیل مستند تفسیر میں مذکور ہے:

"نزول وحی کے زمانے کی سماجی صورت حال غیر محفوظ تھی۔ نہ کوئی سماجی انتظامیہ، نہ کوئی پولیس فورس، نہ کوئی قانونی عدالت، نہ جرم کے مقدمے کی کوئی سماعت، نہ کوئی جیل اور نہ ہی مجرموں کو سزا دینے کے لئے کوئی ادارہ تھا۔ لہٰذا، مجرموں کو لامحدود اختیارات حاصل تھے۔ وہ اپنے قبیلے کے اثر و رسوخ پر انحصار کرتے ہوئے کسی بھی غیر محفوظ شخص کو ستا سکتے تھے، ان کے ساتھ مار پیٹ کر سکتے تھے بڑے بڑے جرائم کا ارتکاب کر سکتے تھے اور معاشرے میں دہشت پھیلا سکتے اور دن کے اجالے میں اوارہ گردی کر سکتے تھے۔ قرآن کو یہ فتنہ و فساد روکنا تھا۔ ان کے سامنے حکمرانوں کا مقابلہ کرنے والوں کے اوپر خوفناک سزا اور معاشرے کے گمراہ کن طریقوں کی وجہ سے ان کے سخت عذاب کا شکار ہونے کی مثالیں تھیں۔ قرآن اپنے سامعین کو ان سزاؤں کی یاد دہانی کراتا ہے، (5:33)، اور ایک عبرت ناک سزا کے طور پر چوری کرنے کے لئے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا ہے (5:39)۔ تاہم، وہ اپنے احکام میں معافی کی شقوں کو بھی شامل کرتا ہے (5:39)، اور اس طرح سزا کے طریقہ کار میں لچک کی گنجائش رکھتا ہے۔ [باب 41.1، اسلام کا اصل پیغام]

---

3.         کیا شرک یا بت پرستی کی تمام علامتوں کو تباہ کرنا واجب ہے؟

جو لوگ اپنی اس رائے کے اظہار کے لیے امام مسلم کا یہ حوالہ پیش کرتے ہیں کہ:‘‘ شرک یا بت پرستی کی تمام علامتوں کو تباہ کرنا اور ان تمام ذرائع کو ختم کرنا واجب ہے جو شرک یا بت پرستی کی طرف لے جاتے ہیں’’۔ وہ مندرجہ ذیل بھیانک روایات پر بھی اپنی اس رائے ظاہر کر سکتے ہیں جو کہ قرآن سے متصادم ہے لیکن امام بخاری نے انہیں صحیح حدیث کے طور پر اپنی کتاب میں درج کیا ہے:

انتہائی گہرے زن بیزار معمولات:

ایک مرد کو صرف ایک لباس دے کر بھی عارضی طور پر کسی عورت سے شادی کرنے کی اجازت دینا [حدیث نمبر۔139/جلد۔6]، خاتون جنگی قیدیوں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے کی اجازت دینا [حدیث نمبر۔137/جلد۔7]، خواتین حاملہ غلاموں کے ساتھ ملاعبت کرنا [باب 113 / جلد۔3]، حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک رات میں ایک سو خواتین (اپنی بیویوں) (کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کیے تھے) [حدیث نمبر۔169/جلد۔7]۔ فرشتے صبح تک اس عورت پر لعنت بھجتے رہتے ہیں جو اپنے ساتھ سونے کے لئے اپنے شوہر کی دعوت کو رد کر دیتی ہے۔ [حدیث نمبر۔121،122 / جلد۔7]۔ جہنم میں اکثریت خواتین کی ہو گی اس لیے کہ وہ اکثر اپنے شوہروں پر لعنت و ملامت کرتی ہیں، اور عقل اور مذہب میں کمی کی وجہ سے ان کی ناشکری کرتی ہیں، اور ایک محتاط اور سمجھدار شخص کو گمراہ کر سکتی ہیں [حدیث نمبر۔28، 301 / جلد۔1، حدیث نمبر 541 / جلد۔2]۔ ایک بانجھ، غیر مطمئن اور گستاخ عورت برا شگن ہو سکتی ہے[جلد۔7 / حدیث نمبر۔649، 666۔]۔

یہ حدیثیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جنسی ہوس پرست شخص کے طور پر پیش کرتی ہیں

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دن اور رات میں اپنے نو سے گیارہ بیویوں کے ساتھ ہمبستری کی (حدیث نمبر۔268، 270، 282، / جلد۔1، حدیث نمبر 34 / جلد۔3 حدیث نمبر۔6،142 / جلد۔7)۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سب سے چھوٹی اہلیہ عائشہ صدیقہ کے ساتھ ایک ہی برتن سے ایک ساتھ غسل کیا (حدیث نمبر 272، 298 / جلد۔1) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کے ساتھ ان کے ایام حیض میں ازار کے اوپر سے ملاعبت کی(حدیث نمبر 298، 299، 300 / جلد۔1

 دہشت گردی کو جنم دینے والی روایت حدیث۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چوری، قتل اور ارتداد کے لئے اکل اور ارینہ قبائل کے کچھ مردوں کو انتہائی وحشیانہ سزا کا حکم دیا اور اسلام چھوڑنے والے کسی بھی شخص کو قتل کرنے کا حکم دیا، بنو نضیر کے کھجور کے درختوں کو جلانے اور کاٹ ڈالنے کا حکم دیا اور انہوں نے بنو قریظہ کے مردوں کو قتل کر دیا اور ان کی خواتین اور بچوں کو اور ان کی ملکیت کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دیا(حدیث نمبر 280 / جلد۔1)، اور مدینہ منورہ سے تمام یہودیوں کو جلاوطن کر دیا (حدیث نمبر 280 / جلد۔1 ، 362 / جلد۔ 5)۔

بین المذاہب نفرت کو بھڑکانے والی روایات۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کی آخری ساعتوں کے دوران یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت بھیجی اس لیے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کے پاس عبادت گاہوں کی تعمیر کی [جلد۔1 / حدیث نمبر 427]، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں اور عیسائیوں پر لعنت بھیجی اس لیے کہ انہوں نے جانوروں کی چربی کو پگھلا کر اسے فروخت کیا [جلد۔6 / حدیث نمبر۔156]، جبکہ ان کے لیے چربی کھانا اور اس کی تجارت کرنا ممنوع تھا[جلد۔3 / حدیث نمبر 426۔427۔438]۔

سائنسی طور پر کمزور روایات

سورج ہر دن (خدا کے) عرش کے نیچے جاتا ہے اور دوبارہ اگنے کی اجازت لیتا ہے [جلد۔4 / حدیث نمبر۔421]۔ ایک انسان چالیس دنوں میں ماں کے پیٹ میں ڈالا جاتا ہے، اور اس کے بعد پھر اتنے ہی دنوں میں جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا بن جاتا ہے ، اس کے بعد پھر اتنے ہی دنوں میں گوشت کا ایک ٹکڑا بن جاتا ہے......... [جلد۔4 / حدیث نمبر۔430]، بخار جہنم کی گرمی سے ہے [جلد۔7 / حدیث نمبر 619، 620، 621، 622 /]، سینگ لگانے اور داغنے سے زخم بہتر طریقے سے اچھے ہوتے ہیں [جلد۔7 / حدیث نمبر 584، 585 اور 587، 605]، لوگوں کو کوڑھی سے ایسے ہی دور بھاگنا چاہیے جیسے وہ شیر سے بھاگتے ہیں۔ [جلد۔7 / حدیث نمبر۔608 /]، کوئی بھی وبائی مرض خدا کی اجازت کے بغیر دوسروں کو نہیں پہنچتا، اور صفر کے مہینے میں نہ تو کوئی نحوست ہوتی ہے اور نہ ہی حما ہوتا ہے ۔ [جلد۔7 / حدیث نمبر۔665 (ا)]، / حدیث نمبر 518، 527، 528 جلد۔4۔

مقامی احادیث:

مسلمانوں کو قرآن کو کسی دشمن ملک میں لے جانے کی ممانعت [جلد۔4، حدیث نمبر 233]، گھروں میں زرعی آلات رکھنا [جلد۔3 کی، حدیث نمبر 514]، ایک کتے کی قیمت لینا [جلد۔3/ حدیث نمبر 439، 440] پھلوں کو پکنے اور سرخ ہونے کے بعد فروخت کرنا [جلد۔1، حدیث نمبر 565]۔

یہ وہ لوگ ہیں جو عظیم مثالی قرآنی تعلیمات میں ایک راستہ تلاش کرتے ہیں اور حدیث کے ذریعہ دین میں بری باتوں کو شامل کرتے ہیں۔ ان کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے، اس لیے کہ کوئی بھی زبانی دشنام طرازی ان کی اخلاقی فحاشی اور مذہبی جعل سازی کے لیے مناسب نہیں ہو سکتی۔

---

4.         کیا ایک خلافت امت کی ایک ذمہ داری ہے؟

علماء کا اس بات پر اتفاق کہ ‘‘ایک خلافت کا قیام امت مسلمہ پر ایک مذہبی فریضہ ہے’’، نظام حکمرانی کے مطابق قرآنی پیغام کے مطابق نہیں ہے۔ جیسا کہ نیو ایج اسلام پر میرے تفسیری مضامین میں مذکور ہے:-

"لہذا، حقیقی معنوں میں، ایک اسلامی ریاست کا کوئی سیاسی ماڈل نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے تحت چلنے والی اسلامی خلافت کو ایک ماڈل کے طور پر شمار نہیں کیا جا سکتا اس لیے کہ یہ نظام حکومت خالصتا مذہبی بنیادوں پر قائم تھا۔ اس ماڈل کو دوبارہ تیار کرنا ایسے ہی ناممکن ہے جیسے ایک مذہبی و سیاسی ریاست کی قیادت کرنے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور ناظرین وحی کو دوبارہ زندہ کرنا ہے۔ ویسے بھی، آج کی کثیر مذہبی دنیا میں ایک مذہبی و سیاسی ریاست ایک تاریخی ضرورت کے بجائے تاریخی ضرورت کے خلاف ہے۔ چنانچہ مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل بہت سے ممالک کا موجودہ اسلامی نام اور مسلم اور غیر مسلم دنیا کے درمیان مذہبی و سیاسی تقسیم خالصتا تاریخ، وطن پرستی، فرسودہ اور دقیانوسیت پر مبنی ہے، اور قرآنی پیغام میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ [باب۔ 42.5 اسلام کا اصل پیغام]

---

5.         "مسلمانوں کو تشدد اور تفوق پرستی کی طرف لے جانے والی شریعت کو ترک کرنا ہوگا"

میں سلطان شاہین صاحب کے اس اختتامی تبصرہ سے مکمل اتفاق کرتا ہوں:

"مسلمانوں کو تشدد اور تفوق پرستی کی طرف لے جانے والی شریعت کو ترک کرنا ہوگا اور تمام معاملات میں اسلامی تعلیمات کے مطابق امن اور تکثیریت پر مبنی ایک ایسی نئی شریعت بنانی ہوگی جو معاصر اور مستقبل کے معاشروں کے لئے موزوں ہو۔"

میری محولہ کتاب کے اختتامی حصہ کے مندرجہ ذیل ریمارکس سے سلطان شاہین کے خیالات و نظریات کی زبردست حمایت ہوتی ہے:

ایک زمانےسے مسلمانوں نے اپنی ثانوی مذہبی کتب اور خاص طور پر کتب حدیث کا ایک با مقصد اور ایماندارانہ جائزہ نہیں لیا ہے، جو کہ از حد ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہو سکتا کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کس طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور ابتدائی مسلمانوں نے نماز، زکوة اور حج سمیت مختلف اسلامی معتقدات اور رسومات کی تدوین کی ہے۔ لیکن یہ حقیقت اب بھی قائم ہے کہ ان کا ارتقاء خالصتا تاریخ کی تعمیر ہے، اور اسی طرح بے شمار عوامل کی بنیاد پر ان میں بگاڑ اور فساد پیدا ہو گیا ہے جن کے اثرات دو تین سو سالوں سے مرتب ہو رہے ہیں جیسا کہ اس سے پہلے اس کا تجزیہ کیا گیا۔ ان احادیث کو جو ابھی ہمارے ہاتھوں میں ہی، ان کی اہمیت کے پیش نظر انہیں قرآن کا ضمیمہ یا تتمہ سمجھنا جیسا کہ بہت سے قدامت پسند علماء اس کی وکالت کرتے ہیں، یا انہیں بلاواسطہ طورپر وحی الٰہی سمجھنا جیسا کہ اسلامی قانون کے کلاسیکی نظریے سے پتہ چلتا ہے، حسب ذیل مضمرات کے حامل ہو سکتے ہیں جو کہ امت مسلمہ کے لیے عظیم نقصان کا باعث ہوں گے:

        مسلمانوں کی اکثریت، نا خواندہ یا تعلیم یافتہ کے پاس ان کے وسیع میدان عمل اور افکار و نظریات کو دریافت کرنے کے لیے نہ تو وقت ہو گا، نہ ہی ضروری کتابیں ہوں گی اور نہ ہی ان کے پاس اتنی علمی لیاقت اور قابلیت ہو گی۔

        مختلف افراد، ادارے، گروہ اور ریاستیں، اپنے معاشروں سے متعلق تمام مسائل سے متعلق اپنے خیالات اور افعال کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لئے آسانی کے ساتھ اپنی مذہبی کتابوں سے اپنے مطلب کی باتوں کو منتخب کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ مثال کے طور پر، اس طرح کے معاملات، سماجی، سیاسی یا مذہبی نوعیت کی یا سیاسی تدبیر، تعلیمی نصاب اور عورتوں کی حیثیت سے متعلق ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح وہ تنازعات میں گھر جائیں گے، اور ایسے تمام معاملات میں علماء سے حزب مخالف کے خلاف فتاوے صادر کروائیں گے۔

        ان کی وجہ سے حق و باطل کے ایک الہی معیار اور مصدر رشد و ہدایت کے طور پر قرآن کی کاملیت پر سوالات اٹھائے جائیں گے، باوجود اس کے کہ حکمت کی ایک کتاب ہونے کا اس کا دعوی تمام حقائق اور تفصیلات کے ساتھ اس سے متعلق تمام امور کو واضح کرنے والا ہے۔

        مذہبی رہنما ان افکار و نظریات، علمی نوعیت اور نمونوں کا احیا کریں گے اور انہیں جاری رکھیں گے جو کہ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں مروج تھے، اور ان احادیث کی ترویج و اشاعت کریں گے جنہیں وہ احترام کی نظروں سے دیکھتے ہیں، اور جن کی تعلیم وہ دیتے ہیں، اس طرح وہ اپنے براہ راست اثر و رسوخ کے تحت مسلمانوں کو ذہنی طور پر اسی طور میں منجمد کر دیں گے، جن کے نتائج سنگین ہوں گے۔

        دنیا کے کئی ممالک میں سرگرم عمل متشدد انتہا پسند یعنی جدید خوارج اور قرامطہ اسلام کو متعصب میڈیا پر منحصر غیر مسلموں کی نظر میں دہشت گردی اور خودکش بم دھماکے کے ایک فرقے میں سمیٹ دیں گے جس کے نتیجے میں بنیادی طور پر سیکولر اور غیر مسلم معاشروں میں آباد عام امن پسند اور قانون پر عمل پیرا مسلمانوں کے لیے سخت مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔

لہٰذا، مسلمانوں کو براہ راست قرآن سے ہی رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے، جیسا کہ چند ممتاز مسلم علماء نے یہ تجویز پیش کی ہے، اور قرآن کے مطابق اس کے حصول کا بہترین طریقہ قرآن کی تحقیق کرنا اور اس میں سے بہترین معانی کو اخذ کرنے کی کوشش کرنا ہے۔

اس کے علاوہ مسلمانوں کو ایک مثالی اخلاقی طرز عمل (اسوۂ حسنہ) پیدا کرنے، اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثے کے ساتھ مکمل انصاف کرنے(33:21/ باب 15) اور اچھی چیزوں میں کمال حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جیسا کہ قرآن نے حکم دیا ہے، (2:148 / باب 16؛ 5:48 / چوہدری 9.4)۔

روایتی مذہبی اسکولوں (مدرسوں) کے نصاب میں جس میں مذہبی مواد کا غلبہ ہے، قرآن اور مسلسل وسعت پذیر اور عالمگیر سائنس اور علوم کے مختلف شعبوں کو شامل کرنا بھی وقت کا ایک سب سے اہم تقاضاہے، جو کہ کلمات اللہ کے مظہر کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں (18:109، 31:27 / باب 2.1) ان کے درمیان اسلامی اور غیر اسلامی کی تقسیم نہیں کی جا سکتی، (باب 10.2)۔

جہاں تک شرعی احکام اور خاص طور پر حدیث کا تعلق ہےتو انہیں ان کا پس منظر اور درجہ جانے بغیر بند آنکھوں سے نہ تو قبول کرنا چاہئے، اور نہ آزادانہ طور پر ان کا حوالہ پیش کرنا چاہیے۔ حدیث دین اسلام کا ایک اتنا اہم حصہ ہے جس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا ورثہ محفوظ ہے۔ تاہم، یہ ایک بہت ہی تکنیکی شعبہ ہے اسی لیے اسے ان ماہرین کے لئے محفوظ کر دیا جانا چاہئے جن کے علم اور جن کی حکمت اور ضعیف اور صحیح احادیث کی تمیز میں کافی پختگی حاصل ہو چکی ہے، احادیث کو خدا کے کلام کے ساتھ مخلوط نہیں کیا جانا چاہیے۔

---

6.         بغدادی، ‘تم دین اسلام پر اپنے دعویٰ میں جھوٹے ثابت ہو چکے ہو!

 "تمام مسلم ممالک کے علماء اور مفکرین نے داعش کے مظالم کے مختلف پہلوؤں کو غیر اسلامی قرار دیکر یا انہیں قرآنی پیغامات کے بالکل برعکس قرار دیکر ایک قابل ستائش کام کیا۔ لیکن داعش کے علماء اور نظریہ ساز اپنے گھناؤنے جرائم کا جواز پیش کرنے کے لیے اپنے خیالات، اپنی منطق اور اپنی تشریحات پیش کر سکتے ہیں۔"

المختصر یہ کہ جب کوئی شخص ایک شیر خوار بچے کو ایک بلند و بالا عمارت کی چھت سے نیچے پھینکتا ہے یا کسی عورت کی عصمت دری کرتا ہے جو کہ ممانعت کی صف میں سب سے پہلے ہے یا کسی مسجد یا چرچ میں اس وقت خودکش بم حملے کرتا ہے جب لوگ عبادت میں مصروف ہوں یا انسانوں پر ایک ایسی سزا (زندگی جلانا) مسلط کر کے خدائی عمل کرتا ہے جو صرف خدا ہی مسلط کر سکتا تو ایسے شخص سےبراہ راست یہ کہا جانا ضروری ہے کہ: ....تم نے دین اسلام کے اپنے دعوے کو کھو دیا ہے! تم ایک خارجی ہو! اور جو لوگ تمہاری پیروی کرتے ہیں وہ اللہ کی رحمت نہیں بلکہ اس کے غضب کا شکار ہیں ابتدائی خوارج کی طرح ان کی بھی مقدر ہلاکت و تباہی ہے۔"

----

7.         اپنی روح سے پوچھیں؛ کیا اسلام دین میں جبر کی اجازت دیتا ہے؟

اس تبصرہ کو پڑھنے والے نیو ایج اسلام کے (New Age Islam) کے تمام قارئین سے التماس ہے کہ وہ اپنی روح سے یہ بنیادی سوال پوچھیں کہ کیا ان کا تعلق مسلمانوں کی اس نسل سے ہے جن کی ماؤں نے تلوار کے سائے میں اسلام قبول کیا ہے یا جن کی مائیں اسلام قبول کرنے یا مسترد کرنے کےلیے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کی طرح) آزاد تھیں ، جس کی شہادت قرآن کے ان الفاظ سے ملتی ہے:

"اور اگر تمہاری بیویوں میں سے کوئی تم سے چھوٹ کر کافروں کی طرف چلی جائے پھر (جب) تم جنگ میں غالب آجاؤ اور مالِ غنیمت پاؤ تو (اس میں سے) ان لوگوں کو جن کی عورتیں چلی گئی تھیں اس قدر (مال) ادا کر دو جتنا وہ (اُن کے مَہر میں)خرچ کر چکے تھے، اور اُس اللہ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔"(60:11)

نوٹ: خلاصہ یہ کہ اس آیت میں ان کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے جن لوگوں نے اسلام قبول کیا اور ان کی کافر بیوں کو ان کے کافر قبیلوں کے پاس جانے کی اجازت دی گئی ہے۔ اگر دین میں کوئی جبر ہوتا تو ان کی کافر بیویوں کو کبھی یہ اختیار نہیں دیا جاتا۔ ان کے شوہر باہمی غم و اندوہ کے بہت سے معاملات میں انہیں چھوڑنے کے بجائے انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کرتے۔"

زندگی کی دھمکی دیکر عورتوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنے پر داعش کی پالیسی ایسی خواتین کو اسلام پر مجبور کرنے کے مترادف ہے، اور اس طرح مسلمانوں کی ایک ایسی نسل تیار کرنا ہے جو جبری شادیوں کے بعد پیدا ہوئی، اور ان کے اندر یہ تصور پیدا ہوگا کہ ان کی ماؤں نے اپنی زندگی کو بچانے کے لئے اسلام قبول کیا تھا، لہٰذا وہ اسلام کے سائے تلے پیدا کرنے یا اس کے فوجیوں کی جنسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے شادی پر مجبور تھیں۔

---

8.         متشدد انتہاپسندوں تاریخ کے زہریلے تلچھٹ سے زیادہ کچھ نہیں ہیں

"۔۔۔ متشدد انتہا پسند - جدید خوارج6 اور قرامطہ تاریخ کے زہریلے تلچھٹ سے زیادہ کچھ نہیں ہیں، اور تقریبا ایک ہزار سال پہلے ان کے ساتھیوں کی طرح تیزی کے ساتھ ختم ہونا اور اسلام سے معدوم ہو جانا ہی ان کا بھی مقدر ہے۔"

لہذا جتنی جلدی مسلم علما اور دانشوران مندرجہ ذیل مضامین پر غور کریں گےان کے لیے اتنا بہتر ہوگا:

Call for international Fatwas to declare the terrorists who advocate wanton killing of innocent people in the name of Islam as ‘Terrorist Apostates’, like the Kharijites of early Islam.” – Oct. 2013

 

http://www.newageislam.com/islam,terrorism-and-jihad/muhammad-yunus,-new-age-islam/call-for-international-fatwas-to-declare-the-terrorists-who-advocate-wanton-killing-of-innocent-people-in-the-name-of-islam-as-‘terrorist-apostates’,-like-the-kharijites-of-early-islam/d/14090

 

Open warning of dire perdition to the Neo Khwarijite (hatred inspiring and terror mongering) Ulama of Pakistan – the ideologues of TTP, Jaishe Muhammad and their likes.” – June 2014

 

URL: http://www.newageislam.com/radical-islamism-and-jihad/alishah-qalander,-new-age-islam/an-open-warning-of-dire-perdition-to-the-neo-khwarijite-(hatred-inspiring-and-terror-mongering)-ulema-of-pakistan-–-the-ideologues-of-ttp,-jaish-e-muhammad-and-their-likes/d/87495

 

 Declare The ISIS As The Kharijites (Those Who Seceded From Islam) As This Article Demonstrates And Declares: Global SOS To The Ulama, Muftis, Intellectuals And Scholars Of Islam – Feb. 2015

 

 http://www.newageislam.com/radical-islamism-and-jihad/muhammad-yunus,-new-age-islam/declare-the-isis-as-the-kharijites-(those-who-seceded-from-islam)-as-this-article-demonstrates-and-declares--global-sos-to-the-ulama,-muftis,-intellectuals-and-scholars-of-islam/d/101373

 

URL: http://newageislam.com/debating-islam/sultan-shahin,-editor,-new-age-islam/what-is-wrong-with-120-moderate-ulema-s--open-letter-to--khalifa--abu-bakr-al-baghdadi’,-and-why-it-will-not-work?-this-moderate-fatwa-does-not-leave-any-leg-for-moderate-islam-to-stand-on/d/104435

 

URL for English article: http://newageislam.com/debating-islam/sultan-shahin,-editor,-new-age-islam/what-is-wrong-with-120-moderate-ulema-s--open-letter-to--khalifa--abu-bakr-al-baghdadi’,-and-why-it-will-not-work?-this-moderate-fatwa-does-not-leave-any-leg-for-moderate-islam-to-stand-on/d/104435

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/wrong-with-120-moderate-ulema/d/104461

 

Loading..

Loading..