New Age Islam
Sun May 11 2025, 03:46 AM

Urdu Section ( 25 Jun 2011, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Muslim Reactions to Blasphemy: An Alternate Position توہین رسول پر مسلمانوں کا رد عمل ایک متبادل صورت

By Yoginder Sikand, NewAgeIslam.com (Urdu Translation by: Md. Zafar Iqbal, NewAgeIslam.com)

The brutal murder of the Pakistani leader Salman Taseer for daring to question his country’s draconian blasphemy law which lays down death for insulting the Prophet Mohammad has ignited furious debate as to whether or not Islam prescribes this extreme punishment for such an act. Predictably, as on many other issues, there seems to be no unanimity among Muslims themselves on this question. While Islamist and mullah ideologues insist that Islam demands death for traducers of the Prophet, liberal Muslim scholars, relying on the same texts as their opponents, stoutly deny that this is so.

One of the few Islamic scholars to have openly denounced the killing of Taseer and to have condemned Pakistan’s blasphemy law is the New Delhi-based Maulana Wahiduddin Khan. Khan has written widely on the issue of blasphemy. One of his earliest essays on the subject appeared in 1986, which was later included in a volume that was published in 1997 under the title Shatm-e Rasul ka Masla Quran wa Hadith aur Fiqh wa Tarikh ki Roshni Mai (‘The Question of Blasphemy Against the Prophet in the Light of the Quran, Hadith, Fiqh and History’). This essay, centred on a case of perceived insult to the Prophet Muhammad and the violent Muslim response to it, bears immediate relevance to the issues being hotly debated today with regard to the anti-blasphemy law in Pakistan.

A regular columnist for NewAgeIslam.com, Yoginder Sikand works with the Centre for the Study of Social Exclusion at the National Law School, Bangalore.

URL for Full Text of English Article: http://www.newageislam.com/the-war-within-islam/muslim-reactions-to-blasphemy--an-alternate-position/d/3978

 

 

توہین رسول پر مسلمانوں کا رد عمل ایک متبادل صورت

یوگندر سکندر

پاکستانی رہنما سلمان تاثیر کے بے رحمانہ قتل نے بحث ومباحثہ کا بازار گرم کردیا ہے۔ کہ آیا توہین رسول کے مجرم کو موت جیسی سخت سزا دینے کا حکم اسلام میں ہے یا نہیں۔ سلمان تاثیر نے پاکستان میں توہین رسول قانون میں مذکورہ سزائے موت مسئلہ پر انگشت نمائی کی تھی۔ظاہر ہے کہ دوسرے بہت سے مسائل کی طرح اس مسئلہ میں بھی مسلمانوں میں آپس میں اتفاق رائے نہیں ہے۔ ہاں کچھ اسلام پسند اور دیگر ملاؤں کو کہنا ہے کہ شان رسول میں گستاخی کرنے والے سزائے موت کے حقدار ہیں۔ لیکن آزاد خیال مسلم اسکالر س سختی سے اس بات سے انکار کرتے ہیں۔ دونوں کی دلیل ایک ہی ہے۔

دہلی کے مولانا وحید الدین خان نے سلمان تاثیر کے قتل کی سرعام مذمت کی ہے۔ خان نے اس حادثہ پر لکھا بھی ہے ۔ اس موضوع پر ان کا پہلا مضمون 1986میں شائع ہوا،بعد میں وہ کئی جلدوں میں، شاتم رسول کا مسئلہ قرآن وحدیث اور فقہ و تاریخ کی روشنی میں ، کے نام سے شائع ہوا۔ اس کا مرکزی خیال شان رسول میں گستاخی اور اس پر مسلمانوں کا سخت رد عمل ہے۔ پاکستان میں توہین رسول قانون کی مخالفت پر بحث ومباحثہ زور پر ہے۔

مولانا وحید الدین خان نے یہ مضمون اس وقت لکھا تھا، جب مسلمانوں کی ایک  جم غفیر نے بنگلور میں واقع دکن ہیرا لڈ روزنامہ کی آفس کو نذر آتش کردیا تھا۔ اس روزنامہ میں ایک مضمون ، محمد، بے وقوف، کے نام سے چھپا تھا۔ اس کی کہانی صرف محمدﷺ کے بارے میں نہیں تھی، لیکن مسلمانوں کو ایسا لگا کہ یہ محمدﷺ کے ذات کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ لہٰذا اس مضمون نے مسلمانوں کو آگ بگولہ کردیا اور مسلمانوں کی ایک بھیڑ نے اس کے آفس کے سازوں سامان کو جلا کر خاکستر کردیا۔ اس میں کروڑوں روپئے کا مالی نقصان ہوا۔ مولانا وحید الدین خان اس مسلم رہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس عمل کی زبردست مذمت کی تھی۔انہوں نے اس عمل کو اسلامی تعلیمات کے خلاف بتایا ۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ ، یقیناً یہ اشتعال انگیز موضوع تھا، لیکن مسلمانوں کو رد عمل بھی بالکل غلط تھا۔وہ سب سمجھ رہے ہیں کہ یہ اسلامی جہاد ہے،حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ خان کا ماننا ہے کہ یہ تو اسلامی روح کی خلاف ورزی ہے۔ اسلامی تعلیمات اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتی ہیں۔ لہٰذا ان کا یہ عمل جہاد فی سبیل اللہ کے دائرے میں ہر گز نہیں آسکتا ہے۔

خان نے لکھا ہے کہ محمد ﷺ کے خلاف ایسے غلط اور توہین آمیز بیانات آج کی کوئی نئی  بات نہیں ہے۔ اعدائے اسلام نے رسول اللہ کو زبانی اور جسمانی دونوں طرح کی اذیتیں پہونچائی ہیں۔ خان نے مزید لکھا ہے، قرآن سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اعدائے اسلام نے رسول اللہ ﷺ کو جھوٹا پاگل اور جادو گر تک کہا ہے۔ اس کے باوجود بھی رسول اللہ نے کبھی بھی ان لوگوں کو قتل کرنے کی تعلیم نہیں دی۔ اس کے بعد خان لکھتے ہیں ، اگر مسلمان واقعی رسول اللہ کی پیروی کرنا چاہتے ہیں تو انہیں رسول اللہ کے طریقہ پر ہی چلنا ہوگا۔

لیکن افسوس صد افسوس مسلمان ایسا نہیں کررہے ہیں۔ ہاں، جب بھی توہین رسالت کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے مسلمانوں کا آتشیں غضب بھڑک اٹھتا ہے۔ وہ لوگ ایسا اللہ اور اس کے رسول کی پیروی میں نہیں بلکہ اپنے نفس کی پیروی میں کرتے ہیں۔ رسول اللہ کو ستایا گیا، ان کو بد نام کرنے کی مسلسل کوششیں کی گئیں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کرامؓ نہ ان کے گھروں کو تباہ وبرباد کیا اور نہ ہی ان کو قتل کیا۔ اس کے برعکس رسو ل اللہ ان سب کی ہدایت کے لئے دعا کیا کرتے تھے، کہ اے اللہ ان لوگوں کو ہدایت دے، مزید دلائل و براہین سے ان کا مقابلہ کرتے تھے، اور نتیجہ کو اللہ رب العزت کے سپرد کردیتے تھے۔

مولانا وحید الدین خان نے مسلمانوں کو اس بات کا مشور ہ دیا ہے کہ اگر ان کے ایمان کو ٹھیس پہونچا یا جائے اور ان کے پیغمبر کی توہین کی جائے تو انہیں چاہئے کہ ان اعدائے اسلام کے لئے ہدایت کی دعا کریں، ان سے بات کریں اور ان کو غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ اور اس کے لئے میڈیا کا استعمال بھی کریں ۔خان نے آگے لکھا ہے کہ اگر مسلمانوں نے اس امن کے طریقہ سے ہٹ کر کوئی الگ پرتشدد طریقہ کو اختیار کیا، تو یقیناً اللہ مسلمانوں سے خوش ہونے کے بجائے ناراض ہوگا۔ کیو نکہ اللہ تبارک تعالیٰ نے رسول اللہ کو فساد وبگاڑ پھیلانے کے لئے نہیں بلکہ امن وآشتی اور رحمت ورافت سے اس عالم ارضی کر بھردینے کے لئے بھیجا ہے۔

خان بڑی افسوس کے ساتھ اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں کہ مسلمان عام طور پر ہر اس وقت متشدد انہ ردعمل کا اظہار کرتے ہیں جب ان کے ایمان کا مذاق اڑایا جاتا ہے، چاہئے حقیقی اعتبار سے یا تصوراتی اعتبار سے اس کا مذاق اڑایا جائے۔ حالانکہ یہ روز روش کی طرح عیاس ہے کہ رسول اللہ کا یہ طریقہ ہر گز ہرگز نہیں تھا۔ وہ آگے لکھتے ہیں کہ ، یہ مسلمانوں کا سنجیدہ نفسیاتی مسئلہ بن گیا ہے کہ وہ رسول اللہ کے دعوتی طریقہ کو بھول بیٹھے ہیں۔ دعوت الی اللہ تومسلمانوں کا اولین فرض ہے۔ انہوں نے مزید لکھا ہے کہ مسلمانوں غیر قوموں کے ساتھ حریفوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ حالانکہ داعیوں کو تو مدعو  سے محبت والفت کرنی چاہئے اور ان کا بھرپور خیال رکھنا چاہئے۔ لیکن افسوس کہ مسلمان دعوتی میدان میں کافی پیچھے ہٹ چکے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ معمولی سی بات پر غصہ ہوجاتے ہیں اور ان کے دلوں میں دوسروں کی نفرت بیٹھ جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنا توازن ہی کھودیا ہے، اور متانت وسنجیدگی اور سکون و اطمینان کے ساتھ رسول اللہ کے حیات آفریں پیغام کو دنیا والوں تک پہونچا نے کی ذمہ داری سے دست بردار ہوچکے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مسلمانوں کے مابین منفی ذہنیت کا وجود پذیر ہونا ہے۔یہ یقیناً پر تشدد واقعہ کو بڑھا وا دیتی ہے اور دعوت کے امکانا ت کو کم کردیتی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال بنگلور میں واقع روز نامہ دکن ہیرالڈ کے دفتر پر حملہ ہے۔ خان لکھتے ہیں: اس طرح کا واقعہ ہر اس ملک میں ہورہا ہے جہاں مسلمانوں کو رد عمل کی آزادی حاصل ہے۔ وہ اس طرح کی تباہ کاریوں میں ملوث ہوکر اپنی آزادی کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں ، اور سمجھتے ہیں کہ یہی جہاد ہے۔ جب کہ یہ تو ایک غیر اسلامی عمل ہے۔ یہ جہاد نہیں بلکہ سرکشی ہے، اور سرکشی اللہ کی نظر میں بہت بڑا جرم ہے۔ قرآن وحدیث کسی سے بھی ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی ہے کہ شاتم رسول سزائے موت کا مستحق ہے۔ خان نے لکھا ہے کہ اسلام میں کسی بھی جرم کی سزا کے کچھ خاص ایشوز ہیں۔ یہ ایشوز پاکستان میں تو ہین رسول قانون کے بارے میں چل رہے بحث ومباحثہ سے متعلق ہیں۔ وسیع پیمانے پر اس قانون کا غلط استعمال ہورہا ہے اور اس کی آڑ میں اقلیتوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ۔ اس قانون نے آئین کو اسلامی جماعتوں کے ہاتھ میں رکھ دیا ہے( جیسا سلمان تاثیر کے قتل سے پتہ چلتا ہے)۔پاکستانی حکومت کو اس طرح کے زبردست چیلنجیز کا سامنا ہے۔

خان لکھتے ہیں کہ اسلام میں قانون کی باگ ڈور کو اپنے ہاتھ میں لینا انسانوں کے لئے حرام ہے۔ مجرم کو سزا دینے کا اختیار تو صرف مستحکم حکومت کو ہے جب کہ مجرم کا جرم پوری طرح ثابت ہوجائے۔ اگر شریعت میں اس کی سزا کی تعیین پہلے سے موجود ہے تو وہی سزا دی جائے گی۔ اس سے ہٹ کر کوئی دوسری سزا دینا حرام ہے۔ جو بھی شریعت کونافذ کرنے سے رو گردانی کرتا ہے ۔ وہ ایسا ہےگویا کہ وہ صاحب شریعت کے خلاف علم بغاوت بلند کرتا ہے۔ لہٰذا ایسے لوگ سب سے بڑے مجرم ہیں۔ وہ مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : سزا ظالم شخص کے لئے مفید ہوتی ہے ۔ سزا مظالم کو سدھارنے کے لئے دیا جاتا ہے نہ کہ اس کی ذلیل وکمتر دکھانے کے لئے ۔ لہٰذا سزا کے پیچھے اس کی اصلاح کی نیت ہو، نہ کہ اس کو ذلیل کرنے کی۔ اگر اس کو ذلیل کیا جائے گا تو اس کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہوگی، اور اس کے اندر انتقامی جذبہ پیدا ہوگا۔ اور اس کی اصلاح کی ساری امید کا فور ہوجائے گی۔ انہوں نے آگے لکھا ہے کہ جرم کی سزا صرف مجرم ہی کوملنی چاہئے نہ کہ اس کے خاندان کے دوسرے افراد اور قوم کے دوسرے ممبران کو۔ لہٰذا شریعت کےبیان کردہ سزاؤں کو نہ ماننا پھر نہ ماننے والوں کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ کے غیض و غضب کو دعوت دے سکتا ہے۔

خان کے مطابق شریعت کے قانون کو ایسے ملک میں بھی نہیں توڑا جائے گا جہاں زمام حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو جن سے شریعت کےنفاذ کی امید ہی نہیں کی جاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ دین کی تذلیل ہوتے دیکھ کر بھی خود ساختہ قانون وضع کرنا مسلمانوں کے لئے حرام ہے۔خان کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں امن وآشتی اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور رسول اللہ کی مکی زندگی سے سبق حاصل کرنی چاہئے۔ خان آگے لکھتے ہیں کہ ، مسلمانوں پر فرض ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے تئیں غلط فہمی کے شکار لوگوں کی شکایتوں اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کریں اور اسلام کی صحیح تصویر ان کے سامنے پیش کریں۔ اور پر تشدد مظاہرہ سے احتراز کریں تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ یہ مجروح قوم ہے۔ انہوں نے مزید لکھا ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے یہ بحث قطعاً درست نہیں ہے کہ جب کسی قوم کے جذبات کو زک پہنچے تو دوسروں کی جان لینے اور ان پر حملہ کرنے کےلئے کوئی نیا قانون بنالیا جائے، اس کا حق کسی کے پاس نہیں ہے۔

خان نے اپنے اس مضمون کے ذریعہ مسلمانوں سے درخواست کی ہے کہ موجودہ سیاق میں اس کو سمجھیں او رشریعت کے نقطہ نظر سے اپنی ذمہ داریوں کوادا کریں۔ نامناسب حالات کا سامنا صبر وضبط کے ساتھ کریں، اورپوری وفاداری سے دعوت کے اصولوں کی تسلیم کریں۔ اور اگر ان اصولوں سے ہٹ کر اس طرح کے کسی بھی اشتعال انگیز واقعہ کا سامنا کیا جائے گا ، تو صرف جرائم میں اضافہ ہونے کے اس سے کوئی دوسرا فائدہ نہیں ہوگا۔ اور دوسروں کے تئیں مسلمانوں پر جو ذمہ داریاں ہیں اس کو پورا کرنے میں انہیں کامیابی نہیں ملے گی۔بد قسمتی سے پاکستان میں خونی حادثوں نے مولانا وحید الدین خان کے ایک ایک حرف حرف کو سچ ثابت کردیا ہے۔

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/muslim-reactions-blasphemy-alternate-position/d/4911

 

Loading..

Loading..