کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام
موجودہ دور میں اگر عالمی رائے عامہ کے تناظر میں اگر اقوام عالم کا جائزہ لیا جائےتو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ موجودہ عالمی افکار ، خیالات اور نظریات اسلام کی انسانیت نوازی کے منکر ہیں بلکہ اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کے قائل ہیں۔یقینا ان حالات کے ذمہ دار وہ تنظیمیں ہیں جو اسلام کے نام پر دہشت گردانہ اعمال وکردار کو انجام دے رہی ہیں ۔ جبکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ اسلام احترام انسانیت کی تعلیم دیتا ہے ۔یہ وہ اخلاقی پہلو ہے جس نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے ۔اسلامی تہذیب وروایات اور صوفیہ ومشائخ کے اعمال وکردار میں احترام انسانیت کے وہ اعلی فکری وعملی نقوش ملتے ہیں جن پر عمل کرکے آج بھی اہل وطن کے دلوں پر اسلام کے اخلاقی اثرات کا نقش جمیل قائم کر سکتے ہیں اور لوگوں کے دلوں سے اسلام کے متعلق شکوک وشبہات کو عملی طور پر دور کر سکتے ہیں۔
احترام انسانیت کا اندازہ اس حققیت سے یقینا ظاہر ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی علاقے میں گورنر مقرر فرماتے تو تو ہدایت فرماتے کہ لوگوں پر نرمی کی جائے ، انہیں وحشت میں مبتلا نہ کیا جائے ۔صحیح مسلم میں ایک واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ جب معاذ بن جبل کو یمن کی گورنری پر معمور کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
یسروا ولا تعسروا بشروا ولا تنفروا تطاوعا ولا تختلفا
یعنی آسانی پیدا کرنا ، دشواری پیدا نہ کرنا ، لوگوں کو بشارت دینا اور ان کو وحشت زدہ نہ کرنا ، باہم اتفاق رکھنا اور اختلاف نہ کرنا
اور جب حضرت معاذ بن جبل چلنے کے لیے تیار ہوئے اور پاوں رکاب میں ڈالا تو مزید ہدایت فرمائی :
احسن خلقک للناس یعنی لوگوں کے خوش خلقی کا برتاو کرنا ۔ (صحیح مسلم ، کتاب الجھاد ، باب فی الامر بالتیسیر وترک التنفیر )
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ معمول تھا کہ ہمیشہ گورنروں کے متعلق لوگوں سے پوچھتے رہتے تھے ۔ ایک مرتبہ حضرت نے جریر سے حضرت سعد بن ابی وقاص کے متعلق دریافت فرمایا تو انہوں نے یہ یہ جواب دیا :
میں نے ان کو گورنری میں اس حال میں چھوڑا کہ وہ مقدرت میں شریف ترین انسان تھے ، ان میں سختی بہت کم تھی ، اور لوگوں کے لیے اس طرح مشفق ومہربان تھے جس طرح ماں اپنے بچوں کے لیے ہوتی ہے ، لوگوں کی روزی کو چیونٹی کی طرح جمع کرتے تھے۔(الاصابۃ فی معرفۃ الصحابہ ج ۳، ص ۶۴)
احترام انسانیت کے حوالے سے خواجہ نظام الدین محبوب الہی کا یہ واقعہ ہمارے لیے عبرت ہے :
۱۵ محرم الحرام ۷۱۰ھ کو ایک شخص شیخ نظام الدین اولیا کی خدمت میں آیا اور ان کو برا بھلا کہنے لگا ، شیخ خاموشی سے سنتے رہے ، پرھ اس کے سب مطالبات پورے کر دیے ۔جب وہ چلا گیا تو حاضر ین کو بتایا کہ ایسا ہی ایک شخص بابا فرید کی خدمت میں آیا اور ان سے بے باکی کے ساتھ کہنے لگا :‘‘تو بت بن کر بیٹھ گیا ہے’’، اس پر بابا فرید نے جواب دیا :
من نہ ساختہ ام خدا تعالی ساختہ است (یعنی میں نے نہیں بنایا خدا نے بنایا ہے ) (فوائد الفوائد ، ج۲ ص ۸۱، مجلس ۵)
احترام انسانیت کے متعلق اسلام مساوی موقف رکھتا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے‘‘مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ اللہ کے نزدیک سب سے اچھا وہ شخص ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ اچھا سلوک کرے’’۔
احترام انسانیت کو مومن کی ترقی کا ضامن بتایا گیا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک ارشادات میں سچے مومن اور اس کے ایمان کی ترقی کے حوالے سے یہ صراحت ملتی ہے کہ مومن ہمیشہ نیک کام میں ترقی کرتا ہے اور کرتا رہے گا جب تک وہ ناجائز اور حرام خون نہ بہائے اور جب وہ حرام خون بہاکر زمین میں فساد برپا کرے گا تو وہ تھک کر مایوس بیٹھ جائے گا بلکہ اس کی ترقی رک جائے گی (ابوداؤد)
قرآن وسنت نے خونریزی کو سختی سے ممنوع قرار دیا ہے ۔ اور جہاں کہیں بھی جنگ کی اجازت دی گئی وہاں بھی در اصل انسانیت کی حفاظت ہی پیش نظر رہی۔ قرآن کریم صریح لفظوں میں یہ اعلان کر دیا کہ جس نے کسی ایک جان کو قتل کیا نہ جان کے بدلے نہ زمین پر کسی مجرمانہ سورش کی بناء پر تو گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کر دیا (المائدہ)
احترام انسانیت کے لیے قرآن کریم کی یہی تعلیم کافی ہے۔جو مومن ہیں وہ احترام انسانیت کی اسلامی تعلیمات سمجھتے ہیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ اسلام میں امن وشانتی، احترام انسانیت اور انسانی حقوق کی حفاظت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ لہذا آج اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم احترام انسانیت کی تعلیمات پر عمل کریں اور نہیں خوب عام کریں تاکہ دنیا سے نفرت کا خاتمہ کیا جا سکے اور انسانوں کو انسانیت کے قریب کیا جا سکے ۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism