سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
22 نومبر 2023
اسرائیل -حماس جنگ میں بنجامن
نتن یاہو نے جو وحشیانہ طرز عمل اختیار کیا ہے اس نے پوری دنیا کے عوام کو مضطرب کردیا
ہے۔ اسرائیلی فوج نے بنجامن نتن یاہو کے حکم پر حماس کو ختم کرنے کے بہانے غزہ کے معصوم
شہریوں خصوصاً بچوں اور عورتوں پر بم گرائے ہیں اور اس پر افسوس کا اظہار کرنے کے بجائے
استہزائیہ بیانات دئے ہیں۔ نتن یاہو کے کیبنیٹ کے وزراء نے بھی غزہ کے شہریوں کے قتل
عام اور غزہ کو نیست و نابود کر دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔یہ لوگ لگاتار ویسٹ بینک
کو بھی تاراج کرنے اور فلسطینیوں کو ویسٹ بینک سے نکال دینے کی بات کررہے ہیں۔
تازہ اعداد و شمار کے مطابق
اسرائیلی حملے میں اب تک غزہ میں 13 ہزار سے زیادہ معصوم افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن
میں ساڑھے پانچ ہزار بچے اور ساڑھے تین ہزار عورتیں شامل ہیں۔زخمیوں کی تعداد 30 ہزار
ہے جن میں 75 فی صد یعنی 21 ہزار عورتیں ہیں۔بچوں میں کچھ بچے تو ایک دن کے بھی نہیں
ہوئے تھے اور کچھ نے ابھی چلنا بھی نییں سیکھا تھا۔ان سب کے بارے میں بنجامن نتن یاہو
نے کہا تھا کہ غزہ میں کوئی معصوم نہیں ہے۔ اس کی نظر میں غزہ کے سارے لوگ دہشت گرد
ہیں۔ معصوم بچے اور عورتیں بھی اسرائیلی فوج کے لئے خطرہ ہیں۔
بچوں اور عورتوں کی اتنی بڑی
ہلاکت سے یہ واضح ہے کہ اسرائیلی حکومت حماس کو ختم کرنے کے بہانے غزہ کے لوگوں کی
نسل کشی کررہی ہے۔ نسل کشی عالمی قاوانین کے تحت جنگی جرم ہے۔ جنگ کے بھی کچھ اصول
ہوتے ہیں اور ساری دنیا ان عالمی اصولوں کی پابند ہے۔جنگ میں نشانہ لگاکر عورتوں اوربچوں
کو قتل نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اسپتالوں ،پناہ گزیں کیمپوں ، ایمبولینس اور طبی
اہلکاروں پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن بنجامن نتن یاہوں کی حکومت عالمی اصولوں کی خلاف
ورزی کررہی ہے۔ اس نے غزہ کے سب سے پرانے اسپتال الاہلی العربی اسپتال کو جو دراصل
بیپٹسٹ چرچ کے زیر انظام تھا بمباری کرکے تباہ کردیا ۔اس حملے میں پانچ سو سے زیادہ
مریض اور پناہ گزیں ہلاک ہو گئے۔ اس کے بعد اس نے الشفاء اسپتال کا ٹینکوں سے محاصرہ
کیا اور اس پر بمباری کی۔ اس بار اسرائیلی فوج نے یہ دلیل دی کہ الشفاء اسپتال کے نیچے
حماس کا زیرزمین کمانڈ سینٹر ہے۔ اس نے اسپتال کے ڈائریکٹر کو ایک گھنٹے میں اسپتال
خالی کرنے کا حکم دیا اور بہت سے مریضوں اور ڈاکٹروں کو بندوق کی نوک پر اسپتال سے
نکالا۔ پھر بھی ایسے مریض جو انتہائی نگہداشت شعبے یعنی آئی سی یو میں تھے ان کو نکالا
نہیں جاسکا۔ تقریبا پینتیس بچے تھے جو قبل از وقت پیدا ہوئے تھے انییں آکسیجن کی ضرورت
تھی۔ ان کو کسی طرح وہاں سے نکال کر مصر منتقل کیا گیا ۔ان بچوں میں دو کی موت بروقت
دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ہو گئی۔ اس کے بعد اسرائیلی فوج نے الشفاء ہسپتال پر بمباری
کی جس کے نتیجے میں تقریباً 130 مریض مارے گئے۔ اسرائیلی فوج نے اقوام متحدہ کے زیر
انتظام چلنے والے اسکولوں کو بھی بمباری سے تباہ کردیا۔ اس نے جبالیہ کے پناہ گزیں
کیمپوں پر بھی حملہ کرکے سینکڑوں پناہ گزینوں کو بےدردی سے ہلاک کردیا۔
غزہ میں زمینی حملہ شروع کرنے
کے بعد اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ کے شہریوں کو جنوب میں منتقل ہونے کا حکم دیا لیکن
جب شہری جنوب کی طرف جانے لگے تو ان پر رستے میں حملہ کیا۔ اب اسرائیلی فوج نے جنوب
میں خان یونس پر بھی حملے شروع کردئیے ہیں اور رہائشی عمارتوں کو تباہ کررہی ہے۔
الشفاء اسپتال کو پوری طرح
سے تباہ کرنے کے بعد اب اسرائیلی فوج نے انڈونیشیائی اسپتال کا محاصرہ کرلیا ہے اور
وہاں بھی کسی بھی وقت بمباری کرکے مریضوں کو موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے۔ فی الحال غزہ
میں انڈونیشیائی اسپتال اور کمال عدوان اسپتال کام کررہے ہیں جہاں مریضوں اور زخمیوں
کی ایک بڑی تعداس زیرعلاج ہے۔ ان کے لئے جگہ نہیں ہے اور ڈاکٹر کم پڑ گئے ہیں۔ ہر طرف
افراتفری اور چیخ و پکار ہے۔
اب تک اسرائیلی فوج نے صرف
عورتوں ، بچوں اور اسپتال کے مریضوں کا قتل عام کیا ہے اس نے اقوام متحدہ کے کارکنوں
اور ایمبولینس کو بھی نہیں بخشا ہے۔ ساڑھے تیرہ ہزار ہلاک افراد میں 5500 بچے اور
3500 عورتیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر عورت کے ساتھ کم و بیش دو بچے ہلاک ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ تیس ہزار زخمیوں میں سے 75 فی صد یعنی 21 ہزار عورتیں ہیں۔ اس سے یہ واضح
ہوتا یے کہ اسرائیلی فوج قصدا ان مقامات پر بمباری کررہی ہے جہاں عورتیں اپنے بچوں
کے ساتھ پناہ لئے ہوئے ہوتی ہیں یا بچوں کے ساتھ سفر کررہی ہوتی ہیں۔ کئی ویڈیو میں
سڑک پر بچوں کو بمباری سے بچنے کے لئے بھاگتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس افراتفری میں
بچے اپنے والدین سے بچھڑ جاتے ہیں۔
الشفاء اسپتال پر حملہ کرنے
کے لئے اسرائیلی فوج نے یہ دلیل دی تھی کہ اس کے نیچے حماس کا بنکر ہے لیکن اسرئیل
کے سابق وزیراعظم ییود براک نے سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بات کا انکشاف
کر کے نتن یاہو کے منہ پر کالک پوت دی کہ الشفاء اسپتال کے نیچے بنکر غزہ پر اسرائیلی
قبضے کے دوران 1983ء میں بنا یاگیا تھا۔ یعنی الشفاء اسپتال کے نیچے بنکر اسرائیلی
فوج نے بنایا تھا اور اس کا مقصد اسپتال کو چلانے کے لئے اس کی توسیع تھا۔ ہو سکتا
ہے کہ اسرائیلی فوج نے اسپتال کے نیچےبنکر ہنگامی حالات کے پیش نظر یا جنگجوؤں کے حملوں
سے بچنے کے لئے بنا یا ہو۔ اس طرح کے بنکر اسرئیل میں عام ہیں کیونکہ اسرائیل کو حماس
اور دیگر جنگجو تنظیموں کے حملوں کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان
جاری جنگ کے دوران بھی اسرائیل کے شہری بنکروں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ خود بنجامن نتن
یاہو بھی بنکر میں ہی چھپے ہوئے ہیں اور وہیں میٹنگ کرتے ہیں۔اس کے علاوہ اسپتالوں
اور دیگر رہائشی اور سرکاری عمارتوں میں تہہ خانے ہوتے ہیں جنہیں سامان اسٹور کرنے
کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک کے بعد ایک اسپتالوں کو
نشانہ بنانے کے پیچھے اسرائیل کا مقصد اور کیا یوسکتا ہے کہ وہ حماس کو نہیں بلکہ ہورے
غزہ کو ملبے میں تبدیل کردینا چاہتا یے اور بچوں کو ختم کردینا چاہتا ہے ۔بچوں کو خاص
طور پر نشانہ بنانے کی پالیسی کا انکشاف خود ایک اسرائیلی جنرل کے بیٹے مائیکو پے لد
نے کیا۔ اس نے 27 ستمبر 2008ء کو غزہ پر اسرائیل کے 21 روزہ حملوں کے متعلق بتایا کہ
اس حملے کے پہلے ہی دن اسرائیلی فوج نے غزہ پر 100 ٹن بم گرائے تھے جبکہ صرف ایک ٹن
بم ایک شہر کے ایک پورے علاقے کو تباہ کرسکتا یے۔ اس کے علاوہ یہ حملہ 27 ستمبر کو
صبح کو ٹھیک 11 بجکر 25 منٹ پر شروع کیا گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب غزہ میں مارننگ
شفٹ اسکول ختم۔ہوتا تھا اور دن کا شفٹ شروع ہوتا تھا۔اس طرح پورے غزہ کے مارننگ شفٹ
اور دن کے شفٹ کے بچے سڑکوں پر تھے۔ اسرائیلی حکومت نے ٹھیک اسی وقت بمباری شروع کی
تھی تاکہ بچوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاسکے۔
اب اسرئیل کے انصاف پسند لوگ
خصوصا ً تعلیم یافتہ نوجوان بھی بے خوف ہو کر کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل غزہ میں جنگ کے
نام پر جو کچھ کر رہا ہے وہ نسل کشی ہے۔ کچھ دنوں قبل ایک سابق اسرائیلی فوجی بینزی
سانڈرس نے سی این این کے ساتھ ایک انٹریو میں کہا تھا کہ اسرئیلی فوج غزہ میں نسل کشی
کررہی ہے۔ وہ شہریوں اور جنگجوؤں میں کوئی تفریق نہیں کرتی۔اسرائیل کی ایک نوجوان خاتون
کیٹی جو امریکہ میں پی ایچ ڈی کررہی ہے کہتی ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا
ہے۔وہ کہتی ہے کہ جب میں نے اسرائیل اور فلسطین کے تنازعہ کا گہرائی سے مطالعہ کیا
تو اس نتیجے پر پہنچی کہ فلسبطینیوں کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔اس لئے اب میں فلسطینیوں
کی حمایت کرتی ہوں۔
اسرائیلی فوج نے الاہلی اور
الشفاء اسپتال کو تباہ کرنے کے بعد اب انڈونیشیائی اسپتال کو گھیرے میں لیا ہے اور
اس پربھی بمباری شروع کردی ہے۔ وہ اسے بھی تباہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔اب تک تک وہاں
چودہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ انڈونیشیائی اسپتال کے بعد کمال عدوان اسپتال کی باری
آئے گی۔
حیرت یہ ہے کہ اسرائیل نے
یہ کہکر غزہ پر حملے شروع کئے تھے کہ وہ حماس کو اس بار جڑ سے ختم کردے گا لیکن عملی
طور پر دیکھا جارہا ہے کہ وہ اسپتالوں ، اسکولوں اور پناہ گزیں کیمپوں پر حملے کرکے
عام شہریوں کو ہلاک کررہا ہے۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ دراصل حماس کو جڑ سے ختم
کرنا ہی نہیں چاہتا کیونکہ اس نے حماس کو خفیہ طور پر فنڈ مہیا کرکے اسے خود طاقتور
بنایا ہے ۔ نتن یاہو ایک خفیہ کیبینیٹ میٹنگ میں اپنے وزیروں سے کہہ چکے ہیں کہ حماس
ان کا خفیہ اتحادی ہے۔سابق اسرائیلی فوجی بینزی سانڈرس نے بھی سی این این سے کہا تھا
کہ بنجامن نتن یاہو نے حماس کو فنڈ مہیا کرائے تھے۔ حماس کا اصل نام مجمع الاسلام تھا۔
1987ء میں اس نے اپنا نام بدل کر حماس رکھ لیا۔ حماس اسرئیل کے قیام سے پہلےیہودیوں
کی ایک دہشت گرد تنظیم لیہی کے ترجمان اخبار کا نام تھا۔ مجمع الاسلام کو اسرائیل نے
یاسر عرفات کی تنظیم فتح کے مقابلے میں غزہ میں کھڑا کیا تھا۔ فتح ویسٹ بینک میں مقبول
تھا۔مجمع الاسلام کو اسرائیل نے غزہ میں پھولنے پھلنے کا موقع دیا تاکہ ویسٹ بینک یاسر
عرفات کی تنظیم فتح کی گرفت میں رہے اور غزہ پر مجمع الاسلام کا غلبہ رہے ۔اس طرح فلسطین
متحد ہو کر اسرائیل سے آزادی کی جنگ نہ لڑسکے۔2005ء میں جب اسرائیل کو غزہ چھوڑنا پڑا
تو اس نے وہاں حماس کی شکل میں اپنا پراکسی چھوڑ دیا۔
موجودہ جنگ میں اسرائیلی فوج
کی حماس کے بجائے اسپتالوں اسکولوں ریائشی عمارتوں اور پناہ گزیں کیمپوں پر زیادہ توجہ
سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج حماس کے خلاف فیصلہ کن آپریشن نہیں کرنا چاہتی
بلکہ اس کا مقصد صرف غزہ کو تباہ کرنا اور شہریوں کو غزہ سے باہرنکال کر پورے غزہ پر
قبضہ کرنا ہے۔ اور اس کے اس مقصد کی تکمیل کے لئے حماس کے 7 اکتوبر کے حملے نے جواز
دے دیا ہے۔یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ جس حماس نے بظاہر اسرائیل کی غفلت سے فائدہ
اٹھا کر 20 منٹ میں 5000 میزائل اسرائیل پر داغے اور اسرائیل کے آئرن ڈوم دفاعی نظام
کو ناکارہ بنا دیا اسی حماس نے اس کے بعد اسرائیل پر اسی شدت اور رفتار سے حملے جاری
کیوں نہیں رکھے جبکہ اسرائیل کا آئرن ڈوم ناکارہ ہوچکا تھا اور اسرائیل نے زمینی جنگ
بھی اس کے ہفتے کے بعد شروع کی۔اب یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ اسرائیل کے سرحدی علاقے
میں جو موسیقی کا پروگرام 7 اکتوبر کو چل رہا تھا وہ دراصل 5 اور 6 اکتوبر کو ہونا
تھا لیکن پروگرام۔کے آرگنائزروں نے پروگرام کی تاریخ بدل کر 7 اکتوبر کردی تھی۔ اسرائیل
کی ایک اندرونی تفتیش میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے اور کچھ بچ جانے والوں نے بھی کہا
ہے کہ اس دن پروگرام میں حصہ لینے والے یہودیوں پر خود اسرائلی فوجیوں نے فائرنگ کی
تھی اور اپنے ہی شہریوں کو ہلاک کیا تھا۔ اس طرح 7 اکتوبر کا حماس کا حملہ پراسرار
اورمشکوک بن جاتا ہے۔
اگر 7 اکتوبر کو یہودیوں پر
اسرائیل کے فوجیوں کی طرف سے فائرنگ کی بات سچی ہے تو بنجامن نتن یاہو نہ صرف غزہ کے
معصوم شہریوں کے قتل عام کے مجرم ہیں بلکہ اپنے ہی شہریوں کے قتل کے بھی مجرم ہیں۔اس
لئے وہ بلا شبہ ایک جنگی مجرم ہیں۔
جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش ،
جبوتی اور بولیویاکی طرف سے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں بنجامن نتن یاہو اور اسرائیلی
فوج کے خلاف جنگی جرائم کی انکوائری کی درخواست دائر کی گئ ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں
سےبنجامن نتن یایو کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔اسرائیل
کی حکومت نے صرف جاری جنگ میں ہی نہیں بلکہ اس سے قبل بھی غزہ کے عام شہریوں خصوصاً
بچوں کا قتل عام کیا ہے۔ اس لئے بنجامن نتن یاہو اور اسرائیلی فوج کے خلاف 2008 اور
2014ء میں بھی غزہ میں قتل عام کی تحقیقات ہو۔ عالمی برادری متحد ہو کر اسرائیلی فوج
کو اسپتالوں ، پناہ گزیں کیمپوں اور اسکولوں کو تباہ کرنے سے روکے اور غزہ کے شہریوں
کو غذا، دواؤں اور پانی کی دستیابی کو یقینی بنائے۔
-----------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism