پروفیسر فاروق احمد صدیقی
22دسمبر،2024
علامہ فضل حق خیر آبادی کی ایک جید عالم دین، معقولات کے امام 1857 ء کی جنگ آزادی کے سالار کارواں، دلی کی علمی، ادبی وتہذیبی زندگی کے روح رواں، عربی کے قادر الکلام شاعر،اردو اور فارسی شعر و ادب کے اداشناس،کثیر التصانیف بزرگ او رپیکر زہدودرع کی حیثیت سے برصغیر وپاک کی مذہبی، سیاسی، ثقافتی اور علمی وادبی تاریخ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ایسی جامع حیثیات او رمحمود الصفات شخصیت کہیں صدیوں کے بعد مطلع عالم پر جلوہ گر ہوتی ہے او راپنے افکارو نظریات کے انوار سے گم کردہ راہ انسانوں کو یقین واعتماد کے اجالے میں جینے کاشعور عطا کرتی ہے۔ شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال کایہ شعر پوری طرح ان پر منطبق ہوتاہے۔
عمر ہادرکعبہ وبت خانہ می نالد حیات
تاز بز م عشق یک دانائے راز آید بروں
حضرت علامہ ایک ایسے ہی دانائے راز، دیدہ ور اور دانش ور تھے۔ ان کی یگانہ روزگار شخصیت کا ایک اجمالی تعارف کراتے ہوئے جناب سرسید احمد خاں رقم طراز ہیں: ”جمیع علوم و فنون میں یکتائے روزگار اور منطق وحکمت کی تو گویا انہیں کی کفر عالی نے بناڈالی۔۔۔ سحبان کو ان کی فصاحت سے سرمایہ خوش بیانی اور امرأ القیس کو ان کے الفاظ بلند سے دست گاہ عروج معانی، الفاظ پاکیزہ ان کے رشک گوہر خوش آب اور معانی رنگیں ان کے غیرت لعل ناب سرد، ان کے سطور کے آگے پابہ گل اور گل ان کی عبارت رنگین کے سامنے خجل، نرگس اگر ان کے سواد سے نگاہ ملادیتی، مصحف گل کے پڑھنے سے عاجز نہ رہتی اور سوسن اگر ان کی عبارت فصیح سے زبان کو آشنا کرتی صفت گویائی سے عاری نہ ہوتی“۔
یہ کسی عامی اور عقیدت مند کی رائے نہیں، بلکہ ایک ممتاز ادیب اور روشن خیال مفکر سرسید احمد خان کا خراج تحسین ہے جو انہوں نے حضرت علامہ کی خدمت میں پیش کیاہے۔ سرسید کی جلیل القدر شخصیت کی طرح ان کی یہ رائے بھی جتنی جلیل و جمیل ہے محتاج وضاحت نہیں۔
ہمارے عہدے کے ایک مشہور دانشور پروفیسر یوسف سلیم چشتی، حضرت علامہ کی جلالت علمی کا ان لفظوں میں خطبہ پڑھتے ہیں: ”ادب او رحکم کی جن بلندیوں پر مولانا فصل حق خیر آبادی پہنچے، غالب ان کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ان کی حیثیت مولانا کے سامنے طفل مکتب سے زیادہ نہیں۔
چہ نسبت خاک را باعالم پاک
سچ تو یہ ہے کہ جب تک فضل حق شامل حال نہیں ہو، انسان مولانا فضل حق کے مرتبے سے آگاہ نہیں ہوسکتا“۔
اس مقالے کے ذریعہ دراصل یہ تاثر دینا مقصود ہے کہ غالب کی شخصیت اور شاعری کی تعمیر وتشکیل او ران کی بہر طور غالب بنانے میں حضرت علامہ نے جو کلیدی رول اداکیا ہے، اس کونئی نسل کے سامنے لایا جائے تاکہ حضرت علامہ کی بافیض وباوقار شخصیت کا عرفان عام ہو اور غالبیات کے موضوع پر کام کرنے والے حضرت علامہ کو مرزا کے محسن ومربی کی حیثیت سے جانیں او رپہچانیں۔جیسا کہ شیخ محمداکرم نے بھی لکھا ہے:”مولوی فضل حق خیر آبادی غالب کے سب سے بڑے محب او رمحسن تھے انہوں نے نہ صرف مرزا کی شعر و سخن کے میدان میں رہنمائی کی، جو ان کا اصل دائرہ عمل تھا۔ بلکہ ان کی مالی مشکلات دورکرنے کی بھی کوشش کی۔مشہور ماہر غالبیات مالک رام اپنے مضمون ’غالب کی زندگی میں غالب قیام دہلی کااثر‘ کے ذیل میں لکھتے ہیں:’دہلی میں غالب کی ملاقات فضل حق خیر آبادی سے ہوئی اور دونوں کے تعلقات نہایت گہرے اور دوستانہ ہوگئے۔ مولوی صاحب آخری دور کے فاضل اجل اور امام انہوں نے غالب کوان کی بے راہ روی پر متنبہ کہا، خوش قسمتی سمجھئے کہ غالب کے دل میں ان کی وقعت تھی او ران کے خلوص اور پایہ سخن سنجی کو مانتے تھے ورنہ کیا بعید تھا کہ جیسے انہوں نے اس سے پیشتر اکثر لوگوں کی نکتہ چینی کی پرواہ نہیں کی تھی۔ اس طرح ان کی بات کو بھی قابل توجہ نہیں سمجھتے“۔
اسی مضمون میں وہ اخلاقی اثر کے تحت لکھتے ہیں: اگر مولوی فضل حق او ران کے رفقاء کی صحبت کا فقط اتناہی اثر ہوتاکہ وہ (غالب) شاعری میں اپنی غلط روش چھوڑ کر ایک معتدل راہ پر آجاتے تو بھی یہ کچھ معمولی بات نہیں تھی مگر اس سے زیادہ قابل قدر کا م غالب کی اخلاقی اصلاح کا ہوا“۔ ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور اپنے مضمون ”حیات غالب“ میں رقمطراز ہیں: ”مولوی فضل حق خیر آبادی جیسی سخن فہم او رپاکیزہ ذوق ہستی سے غالب نے بہت کچھ حاصل کیا اور ان لفظی ومعنوی تعقیدوں سے پرہیز کرنے لگے جو ان کے کلام میں بیدل کی تقلید کا نتیجہ تھا۔ اگر مولوی فضل حق خیر آبادی سے ملاقات نہ ہوجاتی تو شاید میر تقی میر کی پیشگوئی کی دوسری شق پوری ہوجاتی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یہ لڑکا بھٹک جائے گا۔ طرز کلام کے علاوہ اسی شائستہ صحبت نے مرزا کے اخلاق وآداب پر بھی اچھا اثر کیا“۔ اور اب غالب کے شاگرد مولانا حالی کا یہ حقیقت افروز بیان ملاحظہ ہو:”مرزا غالب خود مجھ سے کہتے تھے کہ میں نے ثبوتے کے جگہ نمود ے لکھا تھا۔مولوی فضل حق کو جب یہ شعر سنایا۔
ہم چنان درتتق غیب نمودے دارند
بوجود ے کہ ندادندزخارج اعیاں
تو انہوں نے کہا تھا کہ اعیاں ثابتہ کے لئے نمودے کالفظ نامناسب ہے۔ اس کی جگہ ثبوتے بنادو۔چنانچہ طبع ثانی میں انہوں نے بجائے نمود ثبوت بنادیا“۔غالب کو حضرت علامہ نے کئی سطحوں پر اپنابھرپور تعاون پیش کیاتھا۔ اس کا اعتراف واظہار ڈاکٹر یوسف حسین خان نے بھی کیا ہے۔ جن کا شمار عہد حاضر کے ممتاز ناقدین میں ہوتاہے۔ وہ اپنی کتاب”غالب اورآہنگ غالب“ میں لکھتے ہیں:”مولوی فضل حق خیر آبادی ا س زمانے کے جید عالم تھے۔ شعر وسخن کابھی پاکیزہ ذوق رکھتے تھے۔ غالب کے ان سے گہرے تعلقات تھے۔ انہوں نے غالب کی ہر طرح سے مدد کی تھی اس لئے غالب انہیں محسن ومربی خیال کرتے تھے۔ مولوی فضل حق ان چند نفوس میں تھے جن کاغالب کی مالی مشکلات دورکرنے کی کوشش کی۔بقول مالک رام علامہ کے ذریعہ غالب کی اصلاح کا کام ہوا۔ بقول حالی غالب نے فن شاعری میں ان کامشورہ قبول کیا اوربقول ڈاکٹر یوسف حسین خان ”انہوں نے (علامہ فضل حق) غالب کی ہر طرح سے مدد کی تھی“۔بس اس سے زیادہ ایک دوست دوسرے دوست کی کیا مدد کرسکتاہے۔الغرض حضرت علامہ، مرزا کی حمایت وہمدردی کیلئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ غالب انہیں اپنا مربی ومحسن تسلیم کرتے تھے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ غالب جن کوان کے کچھ کم نظر معاصرین مہمل کوقرار دے چکے تھے اورطرح طرح کی پھبتیاں کستے تھے حضرت علامہ ہی کے مشورہ پر طرز بیدل کو ترک کرکے آسان گوئی کی طرف مائل ہوئے اور اپنے کلام کے ایک نمائندہ انتخاب کی ان سے درخواست کی۔ جیسا کہ محمد حسین آزاد کے اس بیان سے اندازہ ہوگا:مولوی فضل حق صاحب کہ فاضل بے عدیل تھے۔ ایک زمانے میں دہلی کے عدالت فیصلہ میں سرشتہ دار تھے۔ اس میں مرزا خان عر ف مرزا خانی کو توال شہر تھے۔ یہ دونوں باکمال مرزا صاحب کے دلی دوست تھے۔ہمیشہ باہم دوستانہ جلسے اور شعر سخن کے چرچے رہتے تھے۔ انہوں نے اکثر غزلو ں کو سنا اور دیوان کو دیکھا تو مرزا صاحب کو سمجھایا کہ یہ اشعار عام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آئیں گے۔مرزا نے کہا، اتنا کچھ کہہ چکا، اب تدارک کیا ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا خیر جو ہوا سو ہوا۔انتخاب کرو اور مشکل شعر نکال ڈالو۔ مرزا صاحب نے دیوان حوالے کردیا۔ دونوں صاحبوں نے دیکھ کر انتخاب کیا۔وہ یہی دیوان ہے جو آج ہم عینک کی طرح آنکھوں سے لگائے پھرتے ہیں“۔
اقتباسات کی کثرت کا مجھے احساس ہے مگر موضوع کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر ایسا کرنا ناگریز تھا ورنہ بات واضح او رمدلل نہیں ہوپاتی۔مگر بڑی ناسپاسی ہوگی اگر اس بات کا اعتراف نہ کیا جائے کہ مرزا نے بھی حضر ت علامہ کیساتھ حق دوستی ادا کردیاں او ر امتناع نظیر کے مسئلہ میں جو حضرت علامہ کو شاہ اسماعیل دہلوی سے اختلاف ہوا تھا۔مرزا نے حضرت علامہ کی دل سے حمایت کی اور ان کے نقطہ نظر کی مندرجہ ذیل اشعار کے ذریعہ یوں تائید کی ہے۔
لیک دریک عالم ازروئے یقیں
خود نمی گنجد دوختم المرسلین
جوہر گل برنیاید تثنیہ
درمحمد رہ نیاید تثنیہ
ہرکرا سایہ نہ پسندد خدا
ہمیچودے کے نقش بہ بیند خدا!
یعنی کائنات میں صرف ایک ہی ختم المرسلین ہوسکتاہے۔ اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں۔ ظاہر ہے کہ جب خدا کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ تک ہونا پسند نہ تھا تو اس کا مثل کیونکر پسند کرسکتاہے۔
خلاصہ یہ کہ حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی نے مرزا غالب کی علمی، ادبی، اخلاقی اور اقتصادی ہر لحاظ سے جو مدد کی وہ ہمارے شعر وادب کی تاریخ کاایک زریں باب ہے۔ اس سلسلے میں مزید تحقیق ومطالعے کی ضرورت ہے۔ راقم السطور نے تاریخ ادب اردو کی اس روشن مگر عام نظروں سے اوجھل شخصیت کو منظر عام پرلانے کی مقدور بھر سعی کی ہے۔ موضوع کا حق تو ادانہ ہوسکا۔اہل تحقیق وتدقیق کے لئے میدان خالی ہے۔
22 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/ghalib-allama-fazl-ur-rehman-khairabadi/d/134137
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism