ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
15 نومبر،2024
وطن عزیز ہندوستان کرہ ارض پر اس وحدت خاص کانام ہے جس کو اگر ایک گلدستہ سے تعبیر کیا جائے اور اسی کو اس کی تعریف اور توضیح کی بنیاد بنایا جائے تو یقینا کچھ ایسے حقائق سے ہم اور آپ روبرو ہوں گے جن پر عام طور پر نظر نہیں جاتی ، لازم ہے کہ جس وحدت کی ساخت اور شناخت ایک ایسے اجتماعی فخر کی زندہ مثال بن کر ایک قمقمے کی شکل میں کچھ ا س طرح ابھر جائے جس کی روشنی میں قندیل کا کام کرے۔علاقائی و عالمی وحدتیں ، گردونواح کی تہذیب ،تمدن ومعاشرت ،فکر ونظر، فلسفہ حیات، طرز سیاست وحکمرانی گویا زندگی کا کوئی شعبہ وطن عزیز ہندوستان کی فکر و نظریات سے متاثر ہوئے بغیر اب شاید رہ ہی نہیں سکتا؟
یہ ہندوستا ن جس کو بھارت کہا جاتاہے، آخر اس میں ایسا کیا ہے جو کہیں اور نہیں؟ انسان اور انسانیت کے پہلے قدم کا شرف اس کرہ ارض کو حاصل ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام جو پہلے انسان اور ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی کڑی کے پہلے ستون ہیں ان کو اللہ رب العزت نے جنت سے یہاں اتارا ۔معلوم ہواکہ کرہ ارض پر انسانی زندگی کا آغاز ، اس کی نشو نما ،افزائش ، نموو آرائش وزیبائش ، زبان وبیان، انسانی رشتے سب کچھ کی آماشگاہ یہی ہے۔اتنا ہی نہیں خاتون اول حوا، پہلی بیوی ،پہلی ماں اور پہلی اولاد آدم کے جنم کا شرف بھی اسی زمین کو حاصل ہے۔اسی لئے بھارت کو اس کی اکثریت سناتن یادویہ بھومی کہتی ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلام اور سناتن کا سفر ایک ساتھ ، ایک ہی زمین ، ایک ہی خاندان ، ایک ہی ماں باپ سے ہوا۔آگے چل کر توضیحات اور توجیہات میں فرق کا جو سفر شروع ہوا تو ایک بنیاد ہوتے ہوئے بھی نظریات میں راست اختلاف اور متضاد عقائد نظریات نے جگہ لے لی۔ یہ ایک الگ بحث ہے جو فی الوقت زیر تفصیل نہیں ۔ اللہ کے رسول نبی آخرالزماں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ایسے ہی نہیں کہہ دیا کہ ہند کی جانب س مجھے بھینی ہوائیں آتی ہیں۔جس کی دو مصلحتیں ہیں ایک پیدائش آدم کی اس زمین کا ہونا اور دوسرے اس کی کثرت کے ساتھ اسلام کا اس خطے میں قبولیت ومقبولیت کا سرکرجانا! آج اگر ہند، پاک، بنگلہ دیش اور سری لنکا (جو کل بھارت کا حصہ تھا اور حضرت آدم علیہ السلام اسی خطے میں بھیجے گئے تھے) کی کل آبادی کو ایک جگہ ملا کر دیکھیں تو (۱۴۰ +۲۵ ۵ء۱۷ ۳۱ء۲) 185 کروڑ بنتی ہے جس میں تقریباً 70 کروڑ مسلم ،100 کروڑ ہندو او ربقیہ میں دیگر مذاہب کے ماننے والے ہیں۔ آج عملاً ہندوستان تنہا سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے۔ یہاں جس طرح دین پھیلا اور آج بھی پھیل رہاہے وہ کسی کرشمے سے کم نہیں۔
آگے چلیے زرتشت ایران میں دربدر ہو ئے پناہ یہاں ملی۔ آج پارسی گوکہ تعداد میں کم مگر کردار میں سب سے بڑی اقلیت ، مسلمان ان کے آگے کہیں نہیں، یہودی جب ان کی ستم ظریفیوں کے دور سے گزرنا پڑا تو انہیں پہلے اس مٹی نے ہی آسرا دیا اور عالمی سطح پر عربوں اورعثمانیوں نے دیا۔ مہاتما بدھ کا جنم او ربودھ مت کا آبائی مقام یہ وطن عزیز ہی بنا اس کے بعد مہاویر جین کا جنم اور ان کا دیا ہوا جین دھرم کا بھی آبائی مقام یہ بھارت ہی ہے۔ خالصہ پنتھ کی پیدائش بھی یہیں ہوئی اور بہائی عقیدہ بھی یہاں پھل پھول رہا ہے ۔
اسلام ہندوستان میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ و مقدسہ میں نمودار ہوتاہے مسلم تاجروں کے لئے آپ کی زندگی میں پہلی مسجد سناتن دھرم کے ماننے والے بناتے ہیں ایسی کوئی دوسری نظیر پیش کرنا آسان نہیں، اس دین متعین کو یہاں آنے، اپنے پیر جمانے، اس کی دعوت تبلیغ و اشاعت کرنے کے مواقع فراہم کرنے کا اعزاز بھی اسی وطن عزیز او راس کی آبائی نسل سناتن دھرم کے ماننے والوں کو حاصل ہے۔ آج اس خطے میں فرزندان توحید، عاشقان رسول اور فدایان اہل بیت کی کتنی بڑی تعداد عزت نفس کے ساتھ برابر کے شہری کی حیثیت سے آباد ہے۔
آگے چلیے خانقاہیئت ، صوفی ازم او ربھکتی تحریک مل کر چلتی ہے۔ خسرو جس کے دلدادا ہیں وہ قوم جو 33 کروڑ دیوی دیوتاوں کو مانتی ہو وہ پانچ لاکھ مساجد سے لاالہ اللہ کی صدا کو بلند کرنے پر اعتراض نہیں کرتی۔ اتنا ہی نہیں اسلام کی تبلیغ کا مرکز یہاں بنتاہے، لاکھوں کے اجتماعات ہوتے ہیں، ملک بھر میں جماعتیں گشت کرتی ہیں، حکومت الہٰیہ کی داعی جماعت اسلامی بھی اپنا مرکز رکھتی ہے ، تمام مسالک پر امن ماحول میں اپنے عقائد کی آزادانہ پابندی کررہے ہیں کہیں کوئی تصادم نہیں! ائمہ مساجد کے مشاہرے ، مدارس اسلامیہ کی بقا اور مادر درسگاہ مسلمانان ہند علی گڑھ یونیورسٹی کے حق میں عدالت عظمی مثبت فیصلے سناتی ہے۔ ایسے متعدد حوالے ہماری یادداشت میں محفوظ ہیں۔آگے چلیں ہر سیاسی نظریے ، ثقافت، زبان، تہذیب وتمدن کا یہاں صدیوں سے خیر مقدم رہاہے، متضاد نظریے پھلے پھولے ہیں۔ ان کو آزاد ماحول دستیاب رہاہے، ان گنت تہوار، تقریبات ،مختلف المزاج عادات واطوار یہ سب بنا کسی ٹکراؤ کے یہاں رواں دواں ہیں۔ اتنا ہی نہیں خدا کوماننے والے اور اس کا انکار کرنے والے دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بقائے باہم کی بنیاد پر رہتے چلے آرہے ہیں۔ اتنی آپسی تفریق کے بعد اور باوجود تفرقے کا نہ پایا جانا کیا کسی معجزے سے کم ہے؟ یقینا نہیں۔ مخصوص تناظر میں مسلمانان ہند کی بات کروں تو بھلے ہی مسلم حکمران نسلی طور پر ہندوستانی نہیں بلکہ عربی، ایرانی، منگول ، ترک ،مغل اور افغانی ہوں مگر بہر حال مسلمان تھے۔ ان سے ہندوستانی مسلمان اپنا راست تعلق جوڑتا ہے، اس دور کاذکر بھی فخر سے کرتاہے اس فخر کو اپنی شناخت کا حصہ مانتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ جب ایک ایسا وقت آتا ہے کہ اقتدار اکثریت کی طرف رخ کرتا دکھائی دیتاہے تو معززین ملت کی ایک بڑی جماعت علیحدہ وطن کی بات کرتی ہے اور اس ہدف کو حاصل بھی کرلیتی ہے مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی؟ تقریباً آدھی مسلم آبادی جو ہندو اکثریتی ریاستوں میں بطو ر اقلیت آباد تھی جس کو خالقین پاکستان نے قربان کرکے پاکستان بنایا مگر بناتو اسلام کے نام پر او رمسلمانان برصغیر کے لئے پھر اتنی بڑی تعداد کا یہاں رہ جانا اور کثریتی طبقہ کو انہیں برداشت کرلینا، مستقبل کے بھارت میں برابر کی شہریت، حقوق وفرائض ، ذمہ داریاں اور تمام اعلیٰ ترین منصبوں تک پہنچنے کا حق اور مساوی رسائی کیا کوئی مسلم ملک اپنی اقلیتوں کے ساتھ یہ رویہ روا رکھے ہوئے ہے؟معذرت کے ساتھ نہیں۔ آٹھ سوسالہ دور اقتدار میں اشتراک عمل کی بہترین مثال، مدمقابل بھی اس دور میں سامنے آئے ان کی افواج میں جنرل اور تعداد میں برابر، مسلم حکمرانوں کا واسطہ میر صادق او ر میر جعفر سے پڑا دیگر کوئی نظیر نہیں ؟ مگر یہاں یہ سب ہے او رآج بھی کچھ جائز شکایات کے ساتھ اس برسراقتدار جماعت کے دور میں جس کو مسلمانان ہند جڑسے اکھاڑنے کے درپہ رہتے او رویسا عمل بھی کرتے ہیں سب کچھ روا ں دواں ہے۔ اس سے آگے چلتے ہیں تمام عالم میں وطن عزیز آج آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑی وحدت ہے۔ دنیا کا ہر پانچواں شخص ہندوستانی ہے۔ دوکروڑ سے زائد ہندوستانی دنیا بھر میں اپنی پیشہ وارانہ مہارت کے بل بوتے ہر سطح پر خدمات دے رہے ہیں۔ سب سے بڑی تعداد تقریباً ایک کروڑ خلیجی ممالک میں ہے، ترقی یافتہ دنیا میں ہمارے ماہرین ہر شعبہ میں اپنی علمیت، لیاقت، صلاحیت اور تحقیقی انفرادیت کا دبدبہ بنانے میں کامیاب ہیں۔دنیا کی معیشت میں آج ہم ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جلد ہی ہم اقوام متحدہ کے مستقل رکن بنیں گے اور ترقی پذیر دنیا کی آواز کے ترجمان کی ذمہ داری سنبھال کر سب سے تیز رفتار سے دوڑتی معیشت جلد تیسری دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہوگی۔
آخر میں اتنی خوبیوں کا مالک وطن عزیز ہندوستان، اس کے تمام شہریوں، ذمہ داروں، صاحب اقتدار، مہذب معاشرے ، میڈیا اور رضا کارانہ اداروں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس گلدستے کی عظمت وحرمت، تشخص اور انفرادیت ، حسن وجمال ، خوبصورتی اور خوب سیرتی کا راز کثرت میں وحدت کے اصول او راس کی کوکھ سے ابھری اخلاقیات میں ہے۔ جس کے لئے جانا جاتا ہے۔ آئیے ان لغزشوں اور تجاوزات کو اپنے ضمیر میں تلاش کریں جو فرقہ واریت ،مذہبی منافرت ، تشدد اور شدت پسندی کے مہلک اور خود کش امراض اس وطن عزیز کو اپنی گرفت میں لینے کو ہیں مگر یقین رکھیئے ابھی ضمیر زندہ ہے۔ اس مٹی میں اتنی جان ہے کہ یہ اس کی اصل کو پارہ پارہ ہونے کے بچالے گی۔ انشاء اللہ ! سب کچھ اللہ کی امان میں!
15 نومبر،2024،بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
-------------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/india-unique-unity/d/133744
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism