New Age Islam
Wed Dec 17 2025, 03:52 AM

Urdu Section ( 1 Apr 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Self-Accountability and Remedial Action in Resolving Problems and Advancing General Well-Being اصلاحی عمل اور خود احتسابی

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

29 مارچ،2024

انسانی وحدتوں کی تاریخ مختلف نشیب وفراز سے بھری ہے۔ یہ کل کے حاکم کو آج کا محکوم بنادیتی ہے، جو کل زندگی کے ہر شعبے میں غالب تھا وہ آج ہر میدان میں مغلوب نظر آتا ہے۔ آخرایسا کیا ہوتاہے کہ عروج کازوال سے سامنا ہوتاہے اور زوال عروج بن کر سامنے کھڑا ہوجاتاہے؟ کیا یہ کسی سازش کا نتیجہ ہوتاہے یا کوئی فکری ہیجان اس کے لئے ذمہ دار ہوتاہے؟آئیے ذرا تاریخ میں وہ تلاش کرنے کی کوشش کریں جس کا تجزیہ کئے بغیر مضمون کی اصل او رمنطق تک نہیں پہنچایا جاسکتا!

وطن عزیز ہندوستان ہزاراہا سالہ قدیم تہذیب اور ثقافت کا نام ہے۔ سناتن دھرم اس کا بنیادی مذہبی عقیدہ ہے۔ وید، پوران، بھاگوت، اپنیشد، گیتا،مہابھارت،منواسمرتی او رچانکیہ نیتی اس کی اجتماعی اثاث ہے۔ یہ دنیا کی ایک ایسی منفرد عالمی وحدت ہے جس نے کبھی کسی پر نہ چڑھائی کی، نہ حملہ او رنہ ہی کسی کی زمین یا ملک پرقبضہ کیا۔ البتہ جس پر دنیا کے مختلف خطوں سے مختلف نسل و مذہب کے لوگ حملہ آور ہوکر آئے او رحکومت کی ایک ہزار سال سے زائد غلامی کاہمارا دور ہے اور پھر تقسیم وطن کی صورت میں آزادی!

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہزار سالہ غلامی کا طویل دور عظیم سناتن وآریائی ثقافت کاکیا بگاڑ پایا؟ جواب ہے کچھ نہیں! یہ ملک اس کی وراثت او روجود تمام تشیب وفراز کے بعدکیسے سالم ہیں؟ ایسا تب کہ جب دنیا کے ہر مذہبی عقیدے، ثقافت،نظریے اور تصور حیات کو نہ صرف یہاں آنے، اس کیتبلیغ و تشہیر،تحقیق وترویج کا ہر وہ موقع ملا جو یہاں کی اصل کو کھانہیں بلکہ ہڑپ جاتا۔ ہر ثقافت کو چاہئے اور ایشیائی ساخت کی ہو یا مغربی،یہاں سب پھلے پھولے،یہ ہی زبانوں کے ساتھ ہوا۔ انگریزی، عربی، فارسی یہاں کی سرکاری زبانیں بنیں۔ انگریزی تو جیسے سرکاری سطح پر اول درجے و حیثیت کی زبان ہی بن گئی سو وہ آج بھی ہے۔ ہر عقیدے نے اپنا پورا زور لگایا اسلام کو سب سے زیادہ کامیابی ملی۔ اس میں دعوت وتبلیغ کے ساتھ سات سو سالہ اقتدار کو بھی دخل ہے۔ تقریباً 40 فیصد اس خطے کی آبادی حلقہ بگوش اسلام ہوگئی۔مسیحیت اور دیگر مذاہب کو بھی پوری زمین ملی مگر وہ چند فیصد سے آگے نہ بڑھ سکے۔ سناتن دھرم کے تمام مذہبی مقامات، پیٹھ، دھام، مذہبی اہمیت کے شمالی وجنوبی ہندوستان میں شہر، روایتی تعلیمی نظام سلامت رہے۔ اقتدار میں اپنی علمی،تجارتی ومالیاتی وسپاہانہ مہارت کے باعث مسلم دوراقتدار میں بازار، تجارت،مالیات، بنک کاری،صنعت،افسر شاہی، سپہ سالاری،افواج میں بڑی اکثر یت کے ساتھ تمام شعبوں میں بظاہر محکوم ہندو ہی غالب رہا۔ اس تفصیل میں جانے کا مقصد مضمون کے عنوان کی طرف آپ کی فکر ونظر کولانا ہے۔ یاد رکھیے علمی، عقلی منطقی جواز پر چلنے والی قومیں حکمت ومصلحت سے بظاہر مغلوب دکھائی دینے کے باوجود بھی غالب رہتی ہیں۔ تعداد غالب وغلبے کا کبھی معیار نہیں ہوا کرتی۔ بلکہ غیر معمولی علمی معیار، لیاقت وہمہ جہت مہارت کسی سماج  کا وہ اثاثہ ہے جو اس کے کسی بھی حال میں زیر نہ ہونے کی ضمانت ہوتاہے۔ وہ یہودی جس کو ہٹلر نے زمین بوس کردیا تھا۔ اس نے 200 سے زیادہ نوبل انعام یافتہ پیدا کر دیئے۔ اس فارمولے سے وہ آج تنہا ایک طرف او رباقی دنیا دوسری طرف! اسے جھکانے میں امریکہ سپر پاور تمام عالم ناکام! وطن عزیز میں پارسی تمام بڑے صنعتکاروں کی فہرست دیکھ لیجئے یادیگر علمی صلاحیت کا کوئی میدان،عیسائی اپنی علمی صلاحیت، تعلیمی وفلاحی اداروں کے پھیلے جال اور ان پر ہماری انحصاری،یہ ہی حال جین سماج او رسکھ سماج کاہے۔مسلم حکمراں کیاو رثہ چھوڑ گئے۔ قلعے، باغات، تفریحی عمارات،روایتی محلات وحویلیاں،بڑے بڑے اوقاف جن کی حیثیت مجھ سے بہتر آپ جانتے ہیں۔ وہ 27 فیصد جی ڈی پی جس کا ذکر ہوتاہے آپ اس وقت بھی اس میں کہیں نہ تھے۔ اس ملک کی اکثریت ہی تھی! وہ محکومیت میں کچھ نہیں کھوتی۔ آپ جمہوریت و برابری میں بھی الاماشاء اللہ!

ان سب سے آگاہ کرنے کا ایک بنیادی مقصد ہے۔ بین الاقوامی صورتحال پر بھی نظر ڈالیں۔57 مسلم ممالک،تمام بحری، بری، فضائی اسٹریٹیجک اہمیت کے درے، دریچے اور راستے ان کے پاس تمام اہم معدنیات تیل، پورینیم، سونا اور ان کے پاس امیر ترین ممالک مسلم ممالک سرفہرست مگر ترقی کے ہر زاویے سفارتکاری،ٹکنالوجی، ریسرچ، ایجادات اور دفاع میں ان کی کہیں کوئی گنتی نہیں! ایک اسرائیل کے آگے سب مگر سجدہ ریز! یہ بین الاقوامی حالات ہیں۔ وطن عزیز میں ہم سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق کمزور ترین قومی وحدت!

جب کوئی وحدت احساس کمتری او رمد مقابل کے خوف کی گرفت میں آتی ہے تو بیساکھی کی تلاش میں لگ جاتی ہے، اپنی عقل، ادراک، علمیت، لیاقت اور ذہانت پر محنت کرنا چھوڑ کر سازش اوربھگوڑے پن کو اپنا شعار بنالیتی ہے تو وہ استعمال او راستحصال کا سامان بن کر سامنے آتی ہے۔ اس کے مزدور، مستری، کاریگر، دوکاندار، ٹھیلہ لگانے والے، جرائم اور جیلوں میں اپنی تعداد سے کہیں زیادہ نمائندگی حاصل کرنے والی وحدت بن کر اپنی شناخت بنا لیتے ہیں۔ ہمارے ساتھ اس سے مختلف حالات نہیں!

مسلمانان ہند ہر خوف سے باہر آئیں، اپنے ارد گرد سازشوں کے خود ساختہ جال نہ بنیں،پل سازی پر زندگی کے ہرمیدان میں کام کریں۔اپنے اخلاق، کردار، فہم او رصلاحیتوں میں اضافے پر دن دونی رات چوگنی محنت کریں۔شخصیت سازی پر خاص توجہ دیں۔ وطن عزیز کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی بنیں، اپنی بستیوں کو سب کے رہنے کے لائق بنائیں،اپنے اداروں کو ملک گیر حیثیت میں ڈھالیں، ان میں وہ کشش پیدا کریں کہ وہ مسلم نہ رہ کر سب کے ادارے بن سکیں، قومی دھارے میں اپنی جگہ اور شناخت پیدا کریں اور ترقی کے عمل میں آگے دکھائی دیں۔ مانگنے کامزاج ترک کریں، سہولتوں کی فریاد بندکریں،اپنے بازوؤں پربھروسہ کرنا سیکھیں،ترقی کسی کو چیلیج کرنے کے لئے نہیں، بلکہ ترقی کے قومی عمل میں حصہ داری کے لئے کریں۔

یادرکھیں جس طرح اوپر کی مثالیں میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں، ان سے سبق لیں۔ ان میں سے کسی نے نہ وظیفے مانگے، نہ رعایتیں نہ سہولتیں مانگیں، نہ کوئی ریزرویشن مانگا او رنہ ہی کوئی خصوصی حیثیت! اس کے باوجود بھی ہر دور میں عزت نفس، ترقی کے عمل پر اجارہ او راپنی انفرادی و اجتماعی حیثیت کو ناقابل تسخیر بنا کررکھا۔ اہم ترین شعبہ ہائے زندی پر اپنی دھاک جمائے رکھی۔ تہذیب، ریت رواج، بنیادی      اساس سب کچھ بچا۔ یہاں تک کہ آج ہندوستان دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے، جو جلدہی تیسری پوزیشن حاصل کرلے گا۔ سب سے بڑی منڈی وافرادی قوت فراہم کرنے والا ملک ترقی کے ہر میدان میں برق رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے، ہماری ٹیلنٹ آج دنیا میں ہر جگہ اپنی دھاک جماچکاہے۔ اس سارے سفر میں ہندوستان کا مسلمان کہا ں ہے؟

یہ ملک ایک کھلا معاشرہ ہے، یہاں سب کو مساوی مواقع ہیں، ہر امکان ایک یقین میں ڈھل سکتاہے۔مگر ہم ایک اتنی بڑی قومی وحدت ہوتے ہوئے بھی ہاتھ میں کاسہئ گدائی لئے ہوئے ہیں۔ ذمہ دار کون ہے؟ صرف میں او رآپ! بقیہ خود قریبی! آئیے جذباتی مسائل او ربیجامذہبی جنون کی دنیا سے اوپر اٹھ کر زمین پر اتریں، اپنی کمیوں، خامیوں،کوتاہیوں او رناعاقبت اندیشیوں کا احاطہ کریں۔ حواس کی دنیا میں قدم رکھیں، جب اپنے ارد گرد آپ تلاش گے توایسے ان گنت جواہر پارے آپ کو اپنے ہی حلقے میں مل جائیں گے جو تعداد میں کم، مگر نظیر او رحوصلہ افزائی کیلئے کافی!

ہر چیز کو مسلمان بنانا بند کیجئے۔ اس سے آپ الگ تھلگ پڑجاتے ہیں،تعصب کے نرغے میں آجاتے ہیں، آسان زمین کو بھی مشکل بنالیتے ہیں۔ ہر کام او رہر پہل کوملی جلی پہل بنائیے، اپنے ہم وطنوں کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کے مزاج کو فروغ دیجئے۔جب تک اپنی چار اینٹ کی علیحدہ دیوار بنا کر چلیں گے،مکان تو کیا سیڑھیوں پر ہی رہ جائیں گے! منزل کا تو سوال ہی کیا؟ آج ایسا ہی ہے!

یہ ملک ایک گلدستہ ہے۔ اس میں ہر پھول کو چمن میں رہ کر کھلنے کی زمین ہے۔ اس میں سے ایک پودا الگ لگا کر اپنی دوکان او راپناچمن بنانے کا جب تک مزاج رہے گا حالات بنیادی کروٹ لینے سے قاصر و مجبور رہیں گے۔لیاجائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت، اور خوف واحساس کمتری کا یہ عالم کہ مشترکہ پہلو ں سے عاری وخوفزدہ! یہ نئی دنیا ہے، اس کے نئے تقاضے ہیں۔ اعتماد وہ اثاثہ ہے جو ناممکن کو ممکن بنادیتاہے اور خوف و بلا ہے جو ممکن کو بھی ناممکن بنادیتی ہے! آئیے اس کھوئے ہوئے حوصلے کواپنے اندر تلاش کریں، جو آج بھیک کے کٹورے نے ہم سے چھین لیا ہے۔

29 مارچ،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی 

----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/self-accountability-remedial-resolving-advancing/d/132053

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..