نیو ایج اسلام اسٹاف
رائیٹر
23 مئی 2024
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی
کی ہیلی کاپٹر حادثے میں موت ایران کے لئے ایک بڑا سیاسی نقصان ہے جس کی بھر پائی
میں ایران کو کچھ وقت لگے گا۔ ان کا ہیلی کاپٹر پراسرار طور پر حادثے کا شکار ہوا
اس لئے ایرانی حکومت نے سرکاری طور پر حادثے کے اسباب پر کوئی بیان نہیں دیا ہے
اور حادثے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ چونکہ حادثے کے اسباب پرابھی تک پردہ پڑا
ہوا ہے اس لئے عالمی سطح پر حادثے پر سازش اور تخریب کاری کا زاویہ بھی زیربحث ہے
اور سیاسی اور فوجی تجزیہ کار اس حادثے کے پیچھے کسی سازش سے انکار نہیں
کرتے۔ابراہیم رئیسی اپنے وزیر خارجہ سید امیر عبداللہیان اور دیگر افراد کے ہمراہ
ہمسایہ ملک آذربائیجان میں ایک مشترکہ ڈیم کا افتتاح کرکے ہیلی کاپٹر سے واپس آرہے
تھے کہ ان کا ہیلی کاپٹر ظاہری طور پر خراب موسم کی وجہ سے حادثے کا شکار ہوگیا۔
ان کے ہیلی کاپٹر کے ہمراہ دو اور ہیلی کاپٹر پر ایرانی حکومت کے دیگر نمائندے
سوار تھے۔ دیگر دو ہیلی کاپٹر خراب موسم کے اثرات سے پراسرار طور پر بچ گئے۔امیر
عبداللہیان دوسرے ہیلی کاپٹر پر سوار ہونے والے تھے لیکن اخیر وقت میں انہیں
ابراہیم رئیسی کے ساتھ سوار ہونے کو کہا گیا۔ ان سب باتوں سے حادثے کے پیچھے موسم سے
زیادہ کسی سازش کی کارفرمائی معلوم ہوتی ہے۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی
کی ہیلی کاپٹر حادثے میں موت
-------------
ترکی نے تباہ شدہ ہیلی
کاپٹر کے ملبے کا پتہ لگانے میں اہم کردار ادا کیا ملبے سے یہ معلوم ہوا کہ کسی
طاقتور دھماکے سے ہیلی کاپٹر کے پرخچے اڑگئے اور اس میں سوار سبھی افراد بری طرح
جھلس کر ہلاک ہوگئے۔ اس لئے کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہیلی کاپٹر پر ہائی ٹیک
لیزر ہتھیار سے حملہ کیا گیا ہوگا اور یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ پائلٹ کو کسی قسم
کا پیغام دینے کی مہلت بھی نہیں ملی ۔ جس ہیلی کاپٹر میں ابراہیم رئیسی سوار تھے
وہ بیل 212 ہیلی کاپٹر تھا جو ایک امریکی ہیلی کاپٹر ہے لیکن اس میں ٹرانسپونڈر یا
تو نہیں تھا یا پھر ٹرانسپونڈر کو سوئچ آف کردیا گیا تھا۔ ٹرانسپونڈر ہیلی کاپٹر
کی اونچائی اور لوکیشن بتاتا ہے۔ یہ بھی سازش کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایسا کیسے ہو
سکتا ہے کہ ایک ایسا ہیلی کاپٹر جس میں کسی ملک کا صدر اور اہم وزیر سوار ہوں اس
میں ٹرانسپونڈر نہ ہو یا اسے سوئچ آف کردیا گیا ہو رپورٹوں میں یہ بھی بتایا گیا
ہے کہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے اس ہیلی کاپٹر کے کل پرزے بدلے نہیں جاسکے تھے
اور لمبے عرصے سے اس کی دیکھ بھال کے لئے ضروری آلات دستیاب نہیں ہوسکے تھے۔ اس
لئے ایرانی حکام اس حادثے کا ذمہ دار امریکی پابندیوں کوبھی مانتے ہیں۔
جو لوگ اس حادثے کے پیچھے
کوئی سازش دیکھتے ہیں وہ موساد اور امریکہ کے کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں
کیونکہ امریکہ اور اسرائیل دونوں ایران کو اپنے سیاسی اور فوجی مفادات کے لئے خطرہ
سمجھتےہیں بلکہ اسرائیل تو ایران کو اپنے وجود کے لئے ہی خطرہ مانتا ہے اور اسے
کسی قیمت پر نیوکلیر طاقت بننے نہیں دینا چاہتا۔ چونکہ ایران نوکلیر طاقت بننے کے
قریب ہے اس لئے اسرائیل ایران کو وقفے وقفے سے راست یا بالواسطہ طور پر نقصان
پہنچاتا رہتا ہے۔ 2010ء سے 2020ء کے درمیان ایران کے پانچ نیوکلئیر سائنسداں مارے
گئے ہیں اور ان سب میں اسرائیل کے ہاتھ کی طرف ایران نے انگلی اٹھائی ہے۔اپریل
2021ءمیں اسرائیل نے ایران کے نتانز نیوکلئیر پلانٹ پر 50 میٹر کی گہرائی میں ایک سائیبر
حملہ کرکے نقصان پہنچایا۔ 3 جنوری 2020ء کو امریکہ نے عراق میں بغداد ائیر پورٹ پر
حملہ کرکے ایرانی فوج کے جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کردیا اگرچہ جوابی کارروائی
میں ایران نے بھی 110 امریکی فوجیوں کو ہلاک کردیا لیکن کسی جنرل کی ہلاکت فوجیوں
کی ہلاکت سے زیادہ بڑا نقصان ہے۔
چار سال کے بعد 3 جنوری
2024ء کو ایران میں جنرل قاسم سلیمانی کی چوتھی برسی کی تقریب کےموقع پر ایران میں
امریکہ اور اسرائیل کے حمایت یافتہ داعش نے خود کش دھماکے کرکے103 افراد کو ہلاک
کردیا۔امسال یکم اپریل کو اسرائیل نے شام کے دمشق میں ایرانی قونصل خانے کی عمارت
پر حملہ کرکے ایرانی فوج کے بریگیڈئر رضا زاہدی اور سات فوجی مشیروں کو ہلاک
کردیا۔ اس کے جواب میں ایران نے پیشگی وارننگ دے کر 13 اپریل۔کو اسرائیل۔پر 300
میزائیل اور ڈرون داغے اور اسرائیل کے فوجی اڈوں اور انٹلی جنس ہیڈکوارٹر کو تباہ
کردیا۔ اگرچہ اس آپریشن کے بعد ایرانی حکومت نے یہ عندیہ دیا تھا کہ وہ اس تصادم
کو دوسری سطح تک نہیں لے جانا چاہتی لیکن اسرائیل ایران کو نقصان پہنچانے کا کوئی
موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ اگر ابراہیم رئیسی کی ہلاکت کے پیچھے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کا ہاتھ ہے
تو وہ اس کانشانہ کیوں بن سکتے تھے۔دراصل ابراہیم رئیسی کو اسرائیل اپنا سب سے بڑا
دشمن مانتا ہے۔ اسرائیل کے اخبار ہاریٹز نے رئیسی کو ایران کا بدترین صدر قرار دیا
ہے کیونکہ ان کی ہی سرپرستی اور فوجی مدد سے حماس اور حزب اللہ نے اسرائیل پر اتنا
بڑا حملہ کیا کہ گزشتہ 8 ما میں بھی وہ ان دو جنگجو تنظیموں کو شکست نہیں دے
سکا۔ایران نے بھی 13 اپریل کو اسرائی پر براہ راست حملہ۔کیا جو اسرائیل کی تاریخ
کا سب سے بڑا حملہ تھا۔ یہی نہیں رئیسی نے روس اور چین کے ساتھ ایک پاور بلاک
بنایا تھا جو امریکی بلاک کو مشرق وسطی میں چیلنج کررہا تھا۔ان تینوں نے اپریل میں
مشرق وسطی میں مشترکہ جنگی مشق بھی کی تھی۔اس کے بعد رئیسی سری لنکا اور پاکستان
بھی گئے۔رئیسی کے پاکستان کے دورے کے بعد امریکہ بہت تلملایا تھا اور پاکستان کو
ایران سے تجارت کرنے پر پابندی لگانے کی دھمکی بھی دی تھی۔
اس طرح رئیسی نہ صرف
ایشیا میں بلکہ مشرق وسطی میں بھی ایران کو ایک بڑی سیاسی طاقت کے طور پر پیش کرنے
میں کامیاب ہورہے تھے اور امریکہ اور اسرائیل کی اجارہ داری کو چیلینج کررہے تھے۔
سیاسی تجزیہ کار اسی لئے
رئیسی کی ہلاکت کو سازش کے زاوئیے سے دیکھتے ہیں۔ ایرانی حکومت کو بھی اس بات کا
ادراک تھا کہ اس کے لیڈران ، فوجی افسران ، سائنسداں اور اس کی فوجی تنصیبات ہروقت
امریکہ اور اسرائیل کے نشانے پر رہتے ہیں ۔اس کے باوجود ایرانی حکومت پر امریکہ
اور اسرائیل کے خفیہ اور راست حملے ہوتے رہے۔ ایران خود فوجی اور سائنسی طور پر
ایک ترقی یافتہ اور طاقتور ملک ہے اور اس کا انٹلی جنس کا نظام بھی ترقی یافتہ ہے
اس کے باوجود اسرائل اور امریکہ ایرانی سائنسدانوں ، فوجی افسران پر جان لیوا حملہ
کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں تو اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ایرانی حکومت انٹلی جنس اور
انتظامی سطح پر لاپرواہی کی شکار ہے۔ اس کے پانچ سائنسداں جن حالات میں مارے گئے
وہ بھی ان کی لاپرواہی کا ثبوت ہے۔ اتنے نڑے سائنسداں عام شہریوں کی طرح سفر نہیں
کرتے اور نہ ہی کسی ملک کا صدر ایک ایسے ہیلی کاپٹر میں سوار ہوتا ہے جس کے کل
پرزے پرانے ہو چکے ہوں اور جس میں معیاری آلات نہ لگے ہوں۔ دمشق میں سات فوجی افسر
سفارت خانے میں میٹنگ کررہے تھے یہ جانتے ہوئےبھی کہ عراق اور شام میں ایرانی
ٹھکانوں اور فوجی افسران کو اسرائیل نشانہ بناتا رہتا ہے اور وہ بین الاقوامی
قوانین اور پروٹوکول کی پابندی نہیں کرتا۔ وہ بھی ایک ایسے دور میں جب دونوں ملک
ایک جنگ میں ملوث ہیں۔ ابراہیم رئیسی کا اسرائیل ۔حماس جنگ کے دوران آذربائیجان
جانا بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہوں سیکیوریٹی کو ہلکے میں لیا۔ انہیں معلوم تھا کہ
آذربائیجان اسلامی ملک ہوتے ہوئے بھی اسرائیل کا,اتحادی ملک ہے اور اس نے غزہ جنگ
میں اسرائیل کی حمایت کا کھل کر اعلان کیا ہے۔ لہذا، اسرائیل آذربائیجان کی سرزمین
کو ایران کے خلاف کسی بھی تخریبی سرگرمی کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ رئیسی کے قافلے
کی واپسی کے دوران موسم کا اچانک بگڑ جانا اور کہراچھاجانا بھی معاملے کو پراسرار
بناتا ہے ۔آج کل تکنالوجی کی مدد سے مقامی طور پر موسم کومینی پولیٹ کرنا کوئی
مشکل کام نہیں رہ گیا ہے۔ ڈیم۔کے افتتاح کی تاریخ نہت پہلے متعین ہوچکی ہوگی اور
اس کا علم ان کے دشمنوں کو پہلے سے ہوگا۔ بقیہ دو ہیلی کاپٹروں کا سلامت نکل جانا
بھی معاملے کی پراسراریت میں اضافہ کرتا ہے۔ کسی ڈیم کا افتتاح کوئی اتنا ضروری
اور اہم معاملہ نہیں تھا کہ ایران کے صدر جنگ کے دوران اس کو ٹال نہیں سکتے تھے۔
مجوعی طور پر ابراہیم
رئیسی کی حادثے میں ہلاکت کئی سوالوں کو جنم دیتی ہے لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے
کہ ایران نے اپنے دشمنوں سے اپنے سائنسدانوں ، اپنے فوجی تنصیبات ، فوجی اور سیاسی
لیڈران کے تحفظ کو بہت سنجیدگی سے نہیں لیا ہے اور اس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑا
ہے۔ اگر ایران نے اپنے دشمنوں کو اتنے ہلکے میں نہ لیا ہوتا تو اسے پئے بہ بئے
اتنا نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔
--------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism